اٹارنی جنرل کا خط زیر سماعت معاملے پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے، شہباز شریف
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے جوابی مراسلے میں اٹارنی جنرل کے خط کو ماورائے قانون اور لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت معاملے میں توہین عدالت کے مترادف قرار دیا ہے۔
شہباز شریف کی ہدایت پر 2 صفحات پر مشتمل جوابی مراسلہ ان کے پرسنل سیکریٹری مراد علی کی جانب سے اٹارنی جنرل کے سیکریٹری خالد خان نیازی کو بھجوایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 24 جنوری کو اٹارنی جنرل آف پاکستان نے مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کو خط لکھ کر ان کے بھائی نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس 10دن میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:شہباز شریف کو 10دن میں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت
جس کے جواب میں شہباز شریف کی جانب سے ارسال کردہ جوابی خط میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کا خط میں اختیار کردہ لب و لہجہ انتہائی قابل اعتراض اور نامناسب ہے۔
مراسلے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کے خط میں لاہور ہائی کورٹ کے 16 نومبر 2019 کے حکم کے مندرجات اور جمع کرائی گئی یقین دہانی کو درست طور پر ملحوظ نظر نہیں رکھا گیا اور عدالتی حکم نامے کے درست تناظر کو پیش نظر رکھے بغیر وفاقی کابینہ کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے خط لکھ دیا۔
شہباز شریف کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کے احکامات پر خط لکھنے والے ماتحت افسر حلف نامے کے اختتامی حصے کو سمجھنے سے قطعی قاصر نظر آتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کے خط سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ یہ خط سیاسی وجوہات کی بنا پر لکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ’بھائی کی واپسی کا جعلی حلف نامہ دینے پر لاہور ہائیکورٹ شہباز شریف کےخلاف کارروائی کرے‘
شہباز شریف کی جانب سے کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کے خط کو لکھتے ہوئے قانون، میڈیکل بورڈ کی تشکیل، اس کی کارروائی کی تفصیل اور اس کی بنیاد پر کی گئی معروضات کو نظر انداز کیا گیا۔
مراسلے میں مزید کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کا خط 16 نومبر 2019 کے عدالتی حکم کے دائرہ کار اور متعین کردہ حدود سے تجاوز ہے اور کابینہ کے دم توڑتے سیاسی بیانیے کی حمایت اور میڈیا ٹرائل کی نیت سے جاری کیا گیا۔
شہباز شریف کی ایما پر ارسال کردہ مراسلے میں کہا گیا کہ عدالت عالیہ میں زیر سماعت معاملے سے متعلق یہ خط توہین عدالت کے مترادف ہے اور زیر سماعت معاملے پر اثرانداز ہونے کی کوشش دکھائی دیتا ہے۔
مراسلے میں بتایا گیا کہ عدالتی حکم کی روشنی میں تمام رپورٹس متعینہ مدت میں جمع کرائی گئی اور حلف نامے کے مطابق تمام ذمہ داریاں بروقت ادا کی گئیں، ان سے کبھی صرف نظر نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:نواز شریف کو علاج کیلئے بیرونِ ملک بھیجنے کا فیصلہ وزیراعظم کا تھا، اسد عمر
شہباز شریف کے پرسنل سیکریٹری نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا خط خلافِ قانون، بلاجواز اور کسی قانونی اختیار کے بغیر ہے، خط لکھ کر جس طرح کردار کشی کی گئی، اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا خط
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کو خط لکھ کر ان کے بھائی نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس 10دن میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دفتر سے شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آپ نے ہائی کورٹ میں حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ رجسٹرار ہائی کورٹ کو نواز شریف کی صحت کی جانچ کے حوالے سے رپورٹس وقتاً فوقتاً جمع کراتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد کُل 8 رپورٹس رجسٹرار ہائی کورٹ کے پاس جمع کرائی گئیں اور اور اس سلسلے میں آخری رپورٹ 8 جولائی 2021 کو جمع کرائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں:حکومت کا شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کا فیصلہ
اٹارنی جنرل نے لکھا کہ میڈیا میں دستیاب نواز شریف کی موجودہ جسمانی حالت اور ملک سے روانگی کے وقت انتہائی سنگین حالت کے باوجود انہیں بیرون ملک ہسپتال میں داخل نہیں کرایا گیا اور ان کی سیاسی اور تفریحی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے یہ عندیا ملتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے کے تحت وہ وطن واپسی کے لیے مکمل فٹ ہیں جبکہ حال ہی میں لندن میں نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں اور ان کے قریبی اہل خانہ کے بیانات سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 11 جنوری 2022 کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے کی خلاف ورزی پر کارروائی شروع کروں۔
معاملے کا پس منظر
عدالت عظمٰی نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 28 جولائی 2017 کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا، بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔
تاہم اکتوبر 2019 میں نیب نے سابق وزیر اعظم کو چوہدری شوگر ملز کیس کے سلسلے میں کوٹ لکھپت جیل سے گرفتار کیا تھا۔
بعدازاں نیب کی تحویل میں تفتیش کا سامنا کرنے والے نواز شریف کو خرابی صحت کے سبب تشویشناک حالت میں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے۔
مقامی طور پر مسلسل علاج کے باوجود بھی بیماری کی تشخیص نہ ہونے پر نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال کر انہیں علاج کے سلسلے میں 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
ان کے علاج کے لیے شہباز شریف نے ان کی واپسی کی ضمانت کے لیے حلف نامہ عدالت میں جمع کروایا تھا، تاہم اس کے بعد سے اب تک وہ برطانیہ میں ہی مقیم ہیں۔