وزیر قانون نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کو 'تضاد کا حامل' قرار دے دیا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ جسٹس عیسیٰ کیس میں زیر بحث معاملہ اور اصل فیصلہ غیر واضح ذرائع آمدن کے بارے میں تھا۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے فیصلے کو 'تضاد کا حامل' قرار دیتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ اگر ججز اور ان کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی تو یہ دہرا معیار کہلائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے سرکاری عہدوں پر فائز افراد احتساب عمل کے حوالے سے دباؤ اور خوف کا شکار ہیں، یہ فیصلے قوم کے لیے مثال ہیں۔
فیصلے کو چیلنج کرنے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ قانونی آپشن موجود ہے کیونکہ 'یہ فیصلہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف تھا'۔
یہ بھی پڑھیں: 'قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عہدوں پر برقرار رکھنا گڈ گورننس کی نفی ہے'
انہوں نے وضاحت کی کہ اگر سپریم کورٹ کے سامنے نئی معلومات رکھی جائیں تو نظرثانی درخواست پر فیصلہ آنے کے بعد بھی معاملہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ وزیر قانون نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اسے ’کیوریٹیو ریویو‘ کہا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں بھی ایسے 5 یا 6 فیصلے ہیں، اس میں جسٹس مقبول باقر کا ایک فیصلہ بھی شامل ہے جس میں استدعا کے لیے نئی معلومات فراہم کی گئی کہ نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف تھا۔
جسٹس عیسیٰ کیس میں عدالتی آبزرویشن کے حوالے سے وزیرقانون نے کہا کہ وقت کی حد کا اطلاق احتساب کے عمل پر نہیں ٹیکس پر ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سپریم کورٹ میں ججز کے احتساب کا معاملہ خود اٹھانے کے لیے پہلے سے ہی ایک درخواست دائر ہے۔
سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے گزشتہ روز جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے پر سرینا عیسیٰ کا مؤقف نہیں سنا گیا تھا اور انہیں اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا۔
عدالت نے 9 ماہ 2 دن بعد نظرثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا تھا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا۔
45 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے تحریر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں: سرینا عیسیٰ کو اہم معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، نظرثانی کیس کا تحریری فیصلہ
فیصلے میں کہا گیا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے پر سرینا عیسیٰ کا مؤقف نہیں سنا گیا تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، جبکہ آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہر خاص و عام کا بنیادی حق ہے، صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں مزید کہا کہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کے معاملات کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں، سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جاسکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے، جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہوگی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ایسا بھی ممکن تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہوجاتے، جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کے حق میں بھی آسکتی تھی، لیکن برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کےخلاف نیب کو خط
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ازخود نوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کے خلاف شکایت درج نہیں کروا سکتے، چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ہی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔ صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی تھی۔