حکومت نے متوسط، تنخواہ دار طبقات کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے غور شروع کردیا
حکومت نے متوسط، نچلے اور تنخواہ دار طبقات پر قیمتوں کے بڑھتے دباؤ کے پیش نظر ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹیکس اور اخراجات سے متعلق تدابیر پر غور شروع کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی زیر صدارت میکرو اکنامک ایڈوائزری گروپ کے اجلاس میں شہری متوسط طبقات پر مہنگائی کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے چند اقدامات پر غور کیا گیا۔
اگلے چند روز میں یہ تجاویز فسکل امپلیکیشن کے ساتھ مرتب کی جائیں گی لیکن ان کا اعلان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے اپنے پروگرام کی بحالی اور ایک ارب ڈالر سے زائد کی فراہمی کی منظوری ملنے کے بعد کیا جائے گا۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں بھاری ٹیکس کلیکشن کے پیش نظر تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے انکم ٹیکس بریکٹ میں تبدیلیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ‘تنخواہ دار ملازمین کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں‘
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام سے کہا گیا کہ وہ ٹیکس بریکٹ کے لیے چند تجاویز تیار کریں، ان تبدیلیوں کو ریونیو پر اثرات اور ٹیکس دہندگان کو ریلیف کے اثرات کے ساتھ طے کریں۔
ایک تجویز یہ بھی تھی کہ پیٹرول کی قیمت موجودہ سطح سے بڑھنے کی صورت میں موٹر سائیکل استعمال کرنے والوں کو پیٹرول پر براہ راست سبسڈی فراہم کی جائے، یہ نچلے متوسط طبقے کے لیے ایک طرح کا سماجی تحفظ ہو سکتا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف کی وجہ سے اہم پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ کرنے پر مجبور ہے، لیکن موٹر سائیکل والوں کو پیٹرول قیمتوں پر براہ راست سبسڈی فراہم کرنے کے لیے نادرا اور بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کی بنیاد پر ٹوکن سسٹم متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
اجلاس کے شرکا نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ طرز پر نجی شعبے کے تعاون سے ایک وسیع البنیاد انٹرنشپ پروگرام پر بھی تبادلہ خیال کیا، تاہم اس کے لیے گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔
مزید پڑھیں: بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو بڑا ریلیف ملے گا، فواد چوہدری
ذرائع نے کہا کہ اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ ٹارگٹ ریونیو سے تقریباً 290 ارب روپے کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی تنخواہ دار، شہری اور متوسط اور کم درمیانی آمدنی والے گروپوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اجلاس میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ جہاں غریبوں کو احساس پروگراموں اور سبسڈیز کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا اور صنعتکاروں کو وفاقی حکومت اور مرکزی بینک کی جانب سے مانیٹری اور فسکل امداد کے ذریعے مدد فراہم کی گئی تھی، وہاں اس دوران مہنگائی کا بوجھ تنخواہ دار اور شہر کا متوسط طبقہ برداشت کرتا رہا۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جی ڈی پی کے نظرثانی شدہ تخمینوں اور ری بیسنگ نے معقول معاشی نمو ظاہر کی اور کارپوریٹس نے 900 ارب روپے سے زیادہ کا منافع حاصل کیا جو کہ مالی سال 2020 میں منفی ایک فیصد نمو کے بعد اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کی واضح علامت ہے، جب معاشی نمو غیر مساوی تھی اور اس کے برابر فوائد متوسط طبقے کو ریلیف کے ذریعے پہنچانے کی ضرورت موجود تھی۔
حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق اس اجلاس میں پاکستان کی معیشت کے بنیادی میکرو اکنامک اشاریوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ نہیں ہوا ‘
بیان میں کہا گیا کہ میکرو اکنامک ایڈوائزری گروپ کے اراکین نے موجودہ حکومت کی طرف سے فسکل اور مانیٹری فرنٹ کے معاشی استحکام کے لیے کوششوں کو سراہا۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ تمام اراکین نے معاشی ترقی پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا، اراکین نے اس بات کی تعریف کی کہ معیشت درست سمت میں جارہی ہے۔
بیان کے مطابق پائیدار میکرو اکنامک استحکام کی اہم ضرروت کے پیش نظر اجلاس میں عالمی قیمتوں میں اضافے کے چیلنجز اور متعلقہ اقدامات پر بھی بات کی گئی۔
اجلاس میں عوام بالخصوص شہری متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے مختلف مؤثر اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ اجلاس میں معیشت کی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے عملی حل کا بھی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں وزیراعظم کے سابق مشیر ڈاکٹر عشرت حسین، وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ، گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر، نسٹ ڈین ڈاکٹر اشفاق حسن خان، پروفیسر آف اکنامکس ڈاکٹر راشد امجد اور ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر عابد قیوم سلیری نے شرکت کی۔
کنٹری ڈائریکٹر آئی جی سی ڈاکٹر اعجاز نبی نے اجلاس میں ورچوئل شرکت کی۔