پاکستان کے قرض پروگرام پر آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس دوبارہ ملتوی
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ سینیٹ سے منظور کرانے میں ناکامی کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کی درخواست پر چھٹا جائزہ مکمل کرنے کا عمل مؤخر کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف بورڈ نے ہماری درخواست قبول کی اور نظرثانی کا عمل 2 فروری تک ملتوی کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کو اسٹیٹ بینک کا بل بدھ کو سینیٹ سے منظور کروانا تھا تاکہ آئی ایم ایف بورڈ 28 جنوری کو ہونے والے اپنے اجلاس میں چھٹے جائزے کی تکمیل پر غور کر سکے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس طلب، قرض پروگرام بحال ہونے کا امکان
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم جلد ہی اس بل کو سینیٹ میں لے جا رہے ہیں اور امید ہے کہ اسے منظور کر الیا جائے گا۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمرشل بینکوں کو اپنے قرضے مختص کرتے وقت سرکاری قرضوں پر نادہندہ ہونے کے ممکنہ امکان کو مدنظر رکھنے کے نوٹیفکیشن (آئی ایف آر ایس -نائن)سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن مالیاتی خطرات پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی ضرورت تھی لیکن حکومت سرکاری قرضوں پر چھوٹ دینے کے لیےاسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کے ساتھ بات کرےگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری قرضوں کے رسک کو تجارتی قرضوں کے رسک کی طرح نہیں دیکھا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر حکومت، اپوزیشن کے آمنے سامنے آنے کا امکان
واضح رہے کہ اس سے قبل 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام پر نظرثانی کے لیے آئی ایم ایف بورڈ کی میٹنگ 12 جنوری کو ہونی تھی جسے پاکستان کی درخواست پر پیشگی اقدامات کے اطلاق کا وقت دینے کے لیے ری شیڈول کرکے 28 جنوری کیا گیا تھا۔
متنازع ضمنی فنانس بل 2021 المعروف منی بجٹ اور اور اسٹیٹ بنک ترمیمی بل دونوں کی منظوری اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کے چھٹے جائزے کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری مل جائے۔
اس سے قبل وزارت فنانس کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ حکومت کے پاس وقت نہیں سوائے اس کے کہ وہ بل کو ایوان بالا سے بلڈوز کرے، کیونکہ حکومت کے پاس سینیٹ میں اکثریت نہیں ہے جس کے باعث اس میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی پر پُرامید ہوں، شوکت ترین
عہدیدار نے اس وقت بھی یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بل کی منظوری میں تاخیر ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ کی ری شیڈولنگ کا باعث بن سکتی ہے۔
قوانین کے تحت ایس بی پی بل سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے فنانس اور ریونیو میں بھیجا جائے گا جہاں اس کا شق وار جائزہ اور ترامیم کی منظوری لی جائے گی، اس کے بعد کمیٹی ترامیم پر اپنی رپورٹ سینیٹ کو پیش کرے گی، چیئرمین کمیٹی کو اپنی سفارشات جمع کرانے کا ٹائم فریم دیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ ایوان بالا میں پیش کرنے کے بعد اس بل پر ووٹنگ کے لیے اراکین کو 48 گھنٹوں کا نوٹس دیا جائے گا، تاہم حکومت کے پاس ایک تحریک کے ذریعے اس رول کو معطل کرنے کا اختیار ہے جیسا کہ اس نے 13 جنوری کو ایس بی پی بل کی منظوری کے وقت قومی اسمبلی میں کیا تھا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021 مرکزی بینک کو مکمل خودمختار کرنے کے ساتھ حکومت کے مرکزی بینک سے قرضے کے حصول پر مکمل پابندی عائد کردے گا، تاہم حکومت مارکیٹ ریٹ پر کمرشل بینکوں سے قرض لے سکے گی، جس سے کاروباری اشرافیہ کی ملکیت کے نجی بینکوں کو فائدہ ہوگا۔
مزید پڑھیں: حکومت کو آئی ایم ایف اجلاس سے قبل منی بجٹ منظور کرانے کی کوئی جلدی نہیں
تمام بتائی گئیں 54 ترامیم جس میں 10 نئی شقیں بھی شامل ہیں، ایس بی پی ایکٹ 1956 میں متعارف کرائی گئی ہیں، ایس بی پی بل 2021، 3 مارچ 2021 کو کابینہ نے منظور کیا تھا جبکہ اس مہینے کے شروع میں وزیراعظم سیکریٹریٹ کے لا ڈویژن کی سفارشات پر اس پر نظر ثانی کی گئی تھی۔
مجوزہ ترامیم میں ڈومیسٹک پرائس اسٹیبلیٹی کو ایس بی پی کے بنیادی مقصد کے طور پر شامل ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے مرکزی بینک حکومت کی جانب سے طے کردہ میڈیم ٹرم انفلیشن ٹارگٹ کے مطابق کام کرے گا۔
اگرچہ حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے کی حمایت کرنا کا بنیادی مقصد ہوگا، خیال کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینک اقتصادی ترقی کے لیے حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھے گا جب تک کہ اس کی حمایت، قیمت اور مالی استحکام کے اس کے بنیادی مقصد کو کمزور نہ کرے۔