• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

نور مقدم قتل کیس: ملزم کے وکیل کا پولیس کی وضاحت مقدمے کا حصہ بنانے کا مطالبہ

شائع January 26, 2022
---فائل/فوٹو: ڈان نیوز
---فائل/فوٹو: ڈان نیوز

نورمقدم قتل کیس میں نامزد ملزم کے وکیل نے عدالت پر اور دیا کہ پولیس کی جانب سے تفتیشی افسر کے بیان پر جرح کے دوران دیے گئے بیان کی وضاحت کیس کا حصہ بنایا جائے۔

ایڈیشنل سیشن جج عطاربانی کی عدالت میں میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت کی جہاں مقدمے کے تفتیشی آفیسر انسپکٹر عبدالستار پر وکیل اکرم قریشی نے جرح کی اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے دلائل دیے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کی شرٹ پر مقتولہ کا خون لگا ہوا تھا، پولیس

وکیل اسدجمال نے عدالت سے کہا کہ میرا سوال ہے کہ پولیس کی وضاحت کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے، جس پر جج نے سوال کیا کہ کون سی وضاحت اور کب جاری ہوئی ہے۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے کہا کہ میڈیا کی باتیں میڈیا تک ہی رہنے دیں، تاہم اسد جمال نے کہا کہ آئی جی نے نظام انصاف میں مداخلت کی ہے، جج نے استفسار کیاکہ مجھے بتائیں اگر سرکاری سطح پر ہوا ہے تو بہت بری بات ہے، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں آپ کو آگاہ کر دوں گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد پولیس نے تفتیشی افسر پر جرح کے دوران سامنے آنے والے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا کے ایک حلقے میں سیاق و سباق سے ہٹ کر رپورٹنگ ہوئی ہے۔

پولیس نے کہا تھا کہ آئی جی اسلام آباد محمد احسن یونس نے گزشتہ روز ہونے والی عدالتی سماعت اور میڈیا رپورٹس کی روشنی میں کیس کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس منعقد کیا اور سینئر افسران کو وضاحت کرنے کی ہدایت کی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ تفتیشی افسر کو جرح کے موقع پر مختصر جواب ہاں یا ناں میں دینے کا کہا گیا تھا۔

تفتیشی افسر پر جرح

سماعت کے دوران وکیل اکرم قریشی اور شہزاد قریشی نے تھراپی ورکس کے عملے جبکہ سجاد احمد بھٹی نے جعفر کے گھر کے ملازمین کے وکیل کے طور پر دلائل دیے اور تفتیشی افسر عبدالستار پر جرح کی۔

مزیدپڑھیں: نورمقدم قتل کیس: چاقو پر ظاہر جعفر کےفنگر پرنٹس نہیں، تفتیشی افسر

اکرم قریشی کے سوالوں پر تفتیشی افسر نے ابتدائی طور پر ہاں یا ناں کی صورت جواب دیااور کہا کہ امجد کا بیان شروع میں ریکارڈ نہیں کیا جاسکا تھا کیونکہ ان کی حالت تشویش ناک تھی، امجد کو 14 اگست کو گرفتار کرکے تفتیش کا حصہ بنالیا گیا تھا۔

وکیل نے پوچھا کہ کیا امجد کے بیان کے بعد تعزیرات پاکستان کی شق 324 کے تحت ظاہر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس پر انہوں نے ناں میں جواب دیا۔

انہوں نے کہا کہ امجد کا طبی جائزہ نہیں لیا گیا تھا اور نہ ہی پولیس نے ان کے خون آلود کپڑے قبضے میں لیا تھا۔

وکیل نے سوال کیا کہ کیا جائے وقوع سے امجد کا خون بھی لیا گیا تھا تو تفتیشی افسر نے جواب نفی میں دیا۔

نورمقدم قتل کیس کی ان کیمرہ سماعت مکمل ہوئی جبکہ آئندہ سماعت پر تھراپی ورکس کے وکیل شہزاد قریشی اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم کے وکیل اسد جمال جرح کریں گے۔

عدالت نے سماعت 2 فروری تک ملتوی کردی اور2 فروری کو ملزمان کو 342 کے بیانات دے دیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ قرار

سماعت کے بعد مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تھراپی ورکس نے ویڈیو دیکھنے کی استدعا کی تھی، تھرپی ورکس کے وکیل نے تفتیشی افسر عبدالستار پر جرح بھی مکمل کرلی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم کا بیان بھی سب کے درمیان طے ہوگیا ہے، اور جج نے حکم دیا ہے کہ 2 فروری سے پہلے تمام ملزمان کو سوالات بنا کر دے دیے جائیں گے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو اسلام آباد میں ایک گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024