اداکاری چھوڑنے کے بعد سلطانہ صدیقی کے کہنے پر ’ماروی‘ ڈراما کیا تھا، غزل صدیق
ماضی کی مقبول اداکارہ غزل صدیق نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں لوگ ان کے نام کے بجائے ’ماروی‘ کے نام سے پہچانتے ہیں اور اس بات کا کریڈٹ ڈراما ساز سلطانہ صدیقی کو جاتا ہے۔
غزل صدیق نے 1990 کے بعد اداکاری کا آغاز کیا تھا اور انہوں نے اردو ڈراموں سے قبل سندھی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
غزل صدیق نے اداکاری کے علاوہ میزبانی اور وائس اوور آرٹسٹ کے طور پر بھی کام کیا جب کہ انہوں نے تھیٹرز پلے میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔
ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اسکرین سے غائب رہنے والی غزل صدیق حال ہی میں کینیڈا سے وطن واپسی پر سندھی چینل ’ٹائم نیوز’ کے مارننگ شو میں شریک ہوئیں، جہاں انہوں نے پہلی بار اپنے کیریئر پر کھل کر بات کی۔
غزل صدیق کے مطابق ان کے آباؤ اجداد کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ 9 بہن و بھائیوں میں سب سے کم عمر ہیں۔
ماضی کی مقبول اداکارہ کے مطابق کیریئر کے عروج پر شادی کرنے اور بعد ازاں ماں بننے کے بعد بیٹے کی بہتر پرورش اور تعلیم کے لیے انہوں نے پاکستان سے کینیڈا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور وہ 2008 میں ہی وطن سے چلی گئی تھیں۔
غزل صدیق کا کہنا تھا کہ پاکستان سے 12 سال باہر رہنے کے بعد اب وہ وطن لوٹی ہیں اور اب وہ باقی زندگی یہیں گزاریں گی، تاہم فوری طور پر انہوں نے شوبز میں انٹری سے متعلق نہیں سوچا۔
ان کے مطابق وہ گزشتہ ڈھائی سال سے یوٹیوب چینل بھی چلا رہی ہیں، جس پر اب وہ پاکستان سے منفرد مواد ریلیز کریں گی، ممکنہ طور پر وہ شوبز شخصیات کے انٹرویوز کرنا شروع کریں گی۔
ایک سوال کے جواب میں غزل صدیق نے بتایا کہ انہیں اداکاری سے زیادہ میزبانی کرنا اچھا لگتا ہے اور اگر انہیں میزبانی کا کوئی اچھا موقع ملا تو وہ ضرور اس پر کام کریں گی۔ ماضی میں مواقع ملنے کے باوجود کم اداکاری کرنے کے ایک سوال پر غزل صدیق نے بتایا کہ دراصل اس وقت وہ وائس اوور آرٹسٹ کے طور پر بھی کام کرتی تھیں، جس وجہ سے انہیں دوسرے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں وہ پاکستان میں سب سے زیادہ کام کرنے والی خاتون وائس اوور آرٹسٹ بھی رہی ہیں۔
کیریئر سے متعلق انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنا مقبول ترین ڈراما ’ماروی‘ ہدایت کار سلطانہ صدیقی کے کہنے پر کیا تھا۔
غزل صدیق کے مطابق انہوں نے اس وقت تک اداکاری تقریبا چھوڑ دی تھی مگر سلطانہ صدیقی کے اصرار پر انہوں نے ’ماروی‘ کا کردار ادا کیا جو کہ ان کی پہچان بنا اور اب تک لوگ انہیں اصل نام کے بجائے ’ماروی‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سلطانہ صدیقی نے انہیں اس وقت کہا تھا کہ بھلے وہ اداکاری چھوڑ دیں مگر انہوں نے ’ماروی‘ کا کردار ادا کرنے پر زور دیا اور ان سے متلق تمام ذمہ داریاں خود ہی اٹھائیں۔
غزل صدیق کا کہنا تھا کہ ’ماروی‘ ڈرامے کی شوٹنگ کے بعد سلطانہ صدیقی اپنے بیٹے درید کے ہمراہ انہیں رات کو دیر گئے گھر چھوڑ کر جاتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ماروی‘ ڈراما پہلے ’عمر ماروی‘ کے نام سے سندھی میں بن چکا تھا، جس میں ’ماروی‘ کا کردار سکینہ سموں نے ادا کیا تھا مگر اردو ڈرامے کا مرکزی کردار انہیں دیا گیا۔
ان کے مطابق انہیں ان کے تمام سندھی اور اردو ڈراموں نے اتنی شہرت نہیں دی، جتنی انہیں ’ماروی‘ نے دی۔
پروگرام کے دوران مختلف شہروں سے اداکارہ کے مداحوں نے فون کرکے طویل عرصے بعد ان کے منظر عام پر آنے پر خوشی کا اظہار کیا۔
بعض مداحوں نے فون پر اداکاروں کو بتایا کہ ان کے والدین غزل صدیق کو دیکھتے تھے جب کہ وہ بھی انہیں دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں مگر اداکارہ ویسے کی ویسی ہیں اور ساتھ ہی کچھ مداحوں نے مذاق مذق میں ان سے عمر بھی پوچھی۔
غزل صدیق نے اعتراف کیا کہ بہت سارے لوگ انہیں یہ سامنے بھی بتا چکے ہیں کہ ان کے والدین اور وہ بھی اداکارہ کے ڈرامے دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں، تاہم کہا کہ دراصل وہ اتنی زائد العمر نہیں جتنا لوگ سمجھ رہے ہیں۔
اداکارہ نے مداحوں کے پوچھنے کے باوجود اپنی عمر نہیں بتائی، تاہم کہا کہ وہ اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے اپنی غذا سمیت ورزش کا اہتمام کرتی رہی ہیں۔