• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

کووڈ کو شکست دینے بعد بھی بیماری کی علامات کا سامنا کیوں ہوتا ہے؟ وجہ سامنے آگئی

شائع January 26, 2022
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد کو مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے جس کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہر 10 میں سے ایک یا 3 میں سے ایک مریض کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ لانگ کووڈ کی علامات براہ راست وائرس کا نتیجہ ہوتی ہیں یا بیماری کے نتیجے میں جسم میں تناؤ اور صدمے کی کیفیت اس کا باعث ہے۔

مگر اب طبی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ کن افراد میں کووڈ کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

درحقیقت مخصوص اینٹی باڈیز کی کمی سے لوگوں میں لانگ کووڈ کا خطرہ بڑھتا ہے۔

یہ بات سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔

یونیورسٹی ہاسپٹل زیورخ کی تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کرنے پر دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو وبائی مرض کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوا ان میں مخصوص اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی اس مرض سے جلد صحتیاب ہونے والوں کے مقابلے میں عام ہوتی ہے۔

تحقیق میں مختلف عناصر جیسے مریض کی عمر، کووڈ علامات اور دمہ ہونے یا نہ ہونے کو مدنظر رکھا گیا تو محققین کے لیے یہ پیشگوئی کرنا ممکن ہوگیا کہ مریض میں طویل المعیاد بیماری کا خطرہ کس حد تک کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ہمارے خیال میں اس دریافت اور امیونوگلوبیلون کی شناخت سے ہم ان مریضوں کی شناخت جلد کرسکتے ہیں، جن میں لانگ کووڈ کا خطرہ زیدہ ہوتہا ہے، جس سے تحقیق، اس کے سمجھنے اور علاج میں مدد مل سکے گی۔

تحقیق کے دوران کووڈ سے متاثر رہنے والے 175 مریضوں کے ساتھ 40 صحت مند افراد (جن کو بیماری کا سامنا نہیں ہوا) کو کنٹرول گروپ کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق میں دیکھا گیا کہ ان کی علامات میں وقت کے ساتھ کیا تبدیلیاں آئیں اور ماہرین نے کووڈ کے 134 مریضوں کا جائزہ ابتدائی بیماری کے بعد ایک سال تک لیا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے کے بعد آئی جی ایم اینٹی باڈیز کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوا جبکہ آئی جی جی اینٹی باڈیز کی سطح بعد میں بڑھی جس سے طویل المعیاد تحفظ ملتا ہے۔

مگر تحقیق میں شامل افراد کے خون کے ٹیسٹوں سے ثابت ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں میں آئی جی جی اور آئی جی جی 3 اینٹی باڈی کی سطح کم ہوتی ہے۔

اس کے بعد محققین نے اینٹی باڈیز کے عنصر کو مریض کی عمر، دمہ ہونے اور علامات کی تفصیلات کے ساتھ اکٹھا کیا تو وہ لانگ کووڈ کے خطرے کا اسکور بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

اس اسکور کی بنیاد پر انہوں نے تحقیق سے ہٹ کر کووڈ کے 395 مریضوں پر ٹیسٹ کیا اور ان کا جائزہ 6 ماہ تک لیا۔

تحقیق کے مطابق اس ٹیسٹ سے کسی فرد میں کووڈ کے شکار ہونے سے قبل لانگ کووڈ کے خطرے کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کے لیے علامات کی تفصیلات بھی درکار ہوتی ہیں۔

مگر محققین کا کہنا تھا کہ دمہ کے مریض اور آئی جی ایم و آئی جی جی 3 اینٹی باڈیز کی سطح میں پہلے سے کمی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان افراد میں بیمار ہونے پر لانگ کووڈ کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

ابھی لانگ کووڈ کا کوئی مؤثر علاج موجود نہیں مگر زیادہ خطرے سے دوچار افراد افراد کی شناخت سے ماہرین مریضوں پر ادویات کے کلینکل ٹرائلز اور بحالی نو کے انتظامات کرسکتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

خیال رہے کہ لانگ کووڈ کے حوالے سے اب تک ہونے والے تحقیقی کام میں متعدد علامات کی نشاندہی ہوئی ہے جو بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی لوگوں کو متاثر کررہی ہوتی ہیں۔

ان میں سانس کے مسائل، نظام ہاضمہ کے مسائل، تھکاوٹ، درد، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن سب سے عام رپورٹ کی جانے والی علامات تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024