• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سپریم کورٹ کا 'مجاز اتھارٹی' کی اصطلاح کے استعمال سے گریز کا حکم

شائع January 26, 2022
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صحیح ، واضح اور غیر مبہم زبان کا استعمال  کئی تنازعات سے بچنے میں مدد دے گا—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صحیح ، واضح اور غیر مبہم زبان کا استعمال کئی تنازعات سے بچنے میں مدد دے گا—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ سرکاری نوٹیفکیشنز اور یادداشتوں میں مجاز اتھارٹی جیسی مبہم اور غیر واضح اصطلاح استعمال کرنے کے بجائے متعلقہ افسر کی شناخت کو ظاہر کیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے تحریر کردہ فیصلے میں کہا ہے کہ مجاز اتھارٹی کی اصطلاح استعمال کرنا بے معنیٰ ہے اور اس سے کئی ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن سے بچا جاسکتا ہے اور غیر ضروری وقت اور عوامی وسائل خرچ ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افسران کی شناخت، ان کا نام اور عہدہ ظاہر نہ کرنا عوامی پالیسی اور مفاد کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس سے غیر قانونی کام کرنے والے افراد کو سہولت اور تحفظ ملتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الحق پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکمومتیں، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے رجسٹرار اور ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتیں احکامات اور ہدایات جاری کریں کہ وہ اور ان کے ذیلی ادارے، نیم حکومتی محکمے، اور خود مختار محکمے جب بھی کوئی نوٹیفکیشن، حکم نامہ، سرکاری دستاویز، ہدایات، خط و کتابت کریں، اس میں وہ جاری کرنے والے افسر کا عہدہ اور نام ظاہر کریں۔

یہ بھی پڑھیں:جرگے کا فیصلہ اسلامی فقہ کو نظر انداز نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ

فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ یہ حکم یقینی بنائے گا کہ نوٹی فکیشن قانونی طور پر اجازت یافتہ افسر نے جاری کیا تھا اور اس طرح سے وہ افسر جواب دہ بھی ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ مجاز اتھارٹی کا عہدہ اور نام ظاہر کیے بغیر صرف مجاز اتھارٹی جیسی مضحکہ خیز اور مبہم اصطلاح کے استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے۔

عدالت عظمیٰ نے حکم دیا ہے کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، صوبائی چیف سیکریٹریز، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سربراہ، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے رجسٹرار کو فیصلے کی نقول بھیجی جائیں اور ہدایت کی جائے کہ وہ مطلوبہ احکامات جاری کریں اور مطلوبہ احکامات کو اپنی گزیٹس میں بھی شائع کریں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکم پر تعمیلی رپورٹ یکم مارچ تک یا اس سے قبل چیمبر میں جمع کرائی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: جو بدنیتی میرے کیس میں سامنے آئی کبھی نہیں دیکھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ درست، واضح اور غیر مبہم زبان کا استعمال کئی تنازعات سے بچنے میں مدد دے گا۔

یہ فیصلہ 15 مارچ 2019 کے سندھ سروس ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ بینچ کے فیصلے میں سامنے آیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین جب بھی کسی شخص کو کوئی اختیار دیتا ہے تو یہ اس شخص کی پوزیشن یا عہدہ بھی بتاتا ہے، مثال کے طور جیسے صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس یا گورنر، اور ایسا ہی وفاقی و صوبائی قوانین اور حکومتوں کے طریقہ کار کے قوانین کے حوالے سے بھی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ شخص کا عہدہ اور نام بتائے بغیر صرف مجاز اتھارٹی کہنا بالکل بے معنی ہے، شناخت ظاہر نہ کرنا ابہام پیدا کرتا اور غیر قانونی کام کرنے میں سہولت دیتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024