بنگلہ دیشی وکیل کا انسانی حقوق کی تنظیم پر توہین عدالت کا الزام
ڈھاکہ: بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹریبیونل کے وکیل نے منگل کے روز اسلامی رہنماء کے خلاف فیصلے پر امریکی انسانی حقوق کی تنظیم (ہیومن رائٹس واچ) کی تنقیدی رپورٹ پر توہین عدالت کا الزام عائد کیا ہے۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے گزشتہ ماہ ملک کی بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے رہنما نوے سالہ غلام اعظم کو نوے سال کی سزا سنائی تھی۔
ان پر 1971 میں پاکستان کے خلاف آزادی کی جنگ کے دوران انسانیت سوز جرائم اور قتل وغارت کے الزامات ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپ نے سولہ اگست کو اپنی رپورٹ میں اعظم کے مقدمے کی کاروائی کو ناقص قرار دیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ نے یہ بھی کہا تھا کہ تفتیش کا طریقہ غیرتسلی بخش تھا اور وکلا اور ججوں کا رویہ تعصب پر مبنی تھا۔
وکیل نے ' بنگلہ دیش میں اعظم کے مقدمے کے نقائص' نامی رپورٹ کو من گھڑت اور غلط قرار دیا ہے۔
' تمام بیانات تعصب پر مبنی ، بے بنیاد اور وضع کردہ ہے،' وکیل تورین افروز نے اے ایف پی کو بتایا ۔
اسی لئے ہم نے ٹرایبیونل سے توہینِ عدالت کے نوٹس کی درخواست کی ہے۔
اعظم جنھیں اب جماعت اسلامی کا روحانی رہنما سمجھا جاتا ہے، پانچویں شخص ہیں جنھیں سیکولر حکومت کے قائم کردہ جنگی جرائم کی عدالت نے سزا دی ہے۔ کل چھ افراد کو جنگی جرائم کے مقدمے میں سزا دی گئی ہے۔
ٹریبونل کی جانب سے سزائیں دی جانے کیخلاف نوے فیصد مسلم آبادی کے ملک میں پر تشدد ہنگامے پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں ایک سو پچاس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف نے ان فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں انصاف کے بجائے سیاسی محرکات قرار دیا تھا۔
دیگر جنگی جرائم عدالتوں کے برعکس، بنگلہ دیش کی اس عدالت کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے توثیق اور تائید حاصل نہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے فوری طور پر اس پر تبصرہ نہیں کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کا طریقہ کار بین الا قوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔.
اس ماہ کے شروع میں عدالت میں داخل ایک درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے جماعتِ اسلامی پر سیاست اور انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس میں جواز یہ دیا گیا ہے کہ ملک کا اصل آئین سیکولر ہے جبکہ جماعتِ اسلامی ملک میں اسلامی نظام چاہتی ہے اور یوں اس کا چارٹر ( منشور) ملک کے بنیادی آئین سے متصادم ہے۔
.