مصر: بدیع سمیت اخوان کے سوسے زائد رہنما گرفتار
قاہرہ: مصر کی نگراں حکومت کی وزارتِ داخلہ نے منگل کے روز اخوان المسلمین کے دو اہم رہنما سمیت درجنوں دیگر لیڈروں اور افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں صفوت ہاگزی شامل ہیں جو مبلغ ہیں اور اخوان کے سرگرم لیڈر ہیں۔ انہیں نصر سٹی میں گرفتار کیا گیا ہے۔
گرفتار ہونے والے اہم رہنماؤں کی تعداد ایک سو سے تجاوز کرچکی ہے۔
ان میں اخوان کے اہم رہنما، محمد محدی عاکف، خیرات الشطر، سعد الکتاتنی، رشد ال بیومی اور شیخ وصالح ابو اسماعیل شامل ہیں۔
دوسری جانب سیکیورٹی فورسز کے مطابق انہوں نے اخوان کے ان اڑتیس لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کیا ہے جو ایک جگہ روپوش تھے ۔ پولیس کے مطابق ان کے پاس سے مختلف قسم کے ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے دیگر صوبوں سے اخوان المسلمین کے 56 رہنماؤں کی گرفتاری کا بھی اعتراف کیا ہے۔
اس سے قبل مصر کی وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ پولیس نے ربا الاداویہ سکوائر کے پاس سے اخوان المسلمین کے اہم ترین رہنما کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں گزشتہ بدھ کو مرسی کے سینکڑوں حامی ہلاک کردیئے گئے تھے۔
جاری کردہ ویڈیو میں 70 سالہ رہنما کو صوفے پر بیٹھے دکھایا گیا ہے جن کے آگے میز پر جوس اور پانی دھرا ہے۔
قاہرہ میں الجزیرہ کے رپورٹر مائیک ہانا نے کہا ہے کہ یہ گرفتاری ' بہت اہمیت' رکھتی ہے۔
گرفتاری کے بعد، اخوان نے وقتی طور پر بدیع کی جگہ ان کے نائب محمود عزت کو روحانی سربراہ مقرر کردیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق وزارتِ داخلہ نے بتایا کہ منگل کی صبح کو بدیع ، طوریٰ جیل میں منتقل کردیئے گئے جو جنوبی قاہرہ میں واقع ہے جہاں ان کی حکومت کے سابق رہنما اور سابق صدر حُسنی مبارک موجود تھے۔
وائٹ ہاؤس نے اس گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے معیارات اور ان کے تحفظ سے متصادم قرار دیا ہے۔
اخوان کے ایک سینیئر رہنما، احمد عارف نے پیر کو اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ بدیع کی گرفتاری سے کچھ نہیں بدلے گا۔
' اخوان کا یہ لیڈر ان لاکھوں کروڑوں میں سے ایک ہے جو تختہ اُلٹنے کے مخالف ہیں،' اس نے کہا۔
بدیع اور اس کے دیگر گرفتار ساتھیوں پر اس ماہ کے آخر تک مقدمہ چلایا جائے گا۔ ان پر جون میں اخوان کے صدردفاتر کے باہر آٹھ مظاہرین قتل کرانے کا الزام ہے۔
بدیع اور اس کے دیگر گرفتار ساتھیوں پر اس ماہ کے آخر تک مقدمہ چلایا جائے گا۔ ان پر جون میں اخوان کے صدردفاتر کے باہر آٹھ مظاہرین قتل کرانے کا الزام ہے۔
واضح رہے کہ محمد بدیع کے اڑتیس سالہ بیٹے کو گزشتہ ہفتے حکومت مخالف مظاہروں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ انہیں رعمیس سکوائر پر گولی ماری گئی تھی۔