نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ قرار
راولپنڈی سینٹرل جیل اڈیالہ کے ڈاکٹروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو ذہنیاور جسمانی طور پر مکمل طور پر فٹ قرار دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے جمعرات کو مقدمے کی سماعت کی اور اس موقع پر رپورٹ جج کو ملزم کی رپورٹ پیش کی گئی۔
مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: مرکزی ملزم ظاہر بخشی خانہ سے عدالت میں پیش
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ظاہر جعفر کا متعدد بار طبی معائنہ کیا گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملزم کا ایک ماہر نفسیات سے بھی معائنہ کرایا گیا اور اس نے بھی بتایا کہ وہ ذہنی طور پر تندرست ہیں۔
ظاہر کی نمائندگی کرنے والے جونیئر وکیل عثمان ریاض گل نے مرکزی ملزم کی ظاہر حالت کی نشاندہی کرتے ہوئے اس وقت عدالت سے استدعا کی تھی کہ ظاہر جعفر کے طبی معائنے کے لیے ہدایات جاری کی جائیں۔
گزشتہ سماعت پر ظاہر کی عدالت آمد پر ان کے وکیل نے کہا تھا کہ ملزم کی ذہنی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔
اس سے قبل کیس کے شریک ملزم اور تھیراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ظاہر چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد
جج عطا ربانی نے اس وقت کہا تھا کہ انہوں نے جیل حکام کو خط لکھا تھا جس میں ظاہر کا میڈیکل چیک اپ کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
آج بخشی خانہ سے اسٹریچر پر کمرہ عدالت میں لائے جانے کے بعد مقدمے میں نامزد ملزمان مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کے وکیل سجاد احمد بھٹی نے جج سے ظاہر کو واپس عارضی لاک اپ میں بھیجنے کی درخواست کی۔
انہوں نے عدالت سے مرکزی ملزم کو واپس بخشی خانہ بھیجنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
اس پر جج عطا ربانی نے وضاحت کی کہ وہ گزشتہ سماعت کے دوران ملزم کو ہمدردی کے باعث طلب نہیں کرنا چاہتے تھے تاہم دیگر وکلا نے کمرہ عدالت میں ان کی موجودگی کی درخواست کی تھی۔
ظاہر کی ذہنی صحت کی حالت کا تعین کرنے کے لیے ایک میڈیکل بورڈ کی تشکیل کی درخواست عدالت پہلے ہی خارج کر چکی ہے جس نے اس معاملے پر اپنے تحریری حکم میں کہا تھا کہ یہ درخواست صرف مجرمانہ ذمہ داری سے چھٹکارا پانے کے لیے دائر کی گئی۔
مزید پڑھیں: نور مقدم کے والد نے بیان ریکارڈ کرادیا، ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کا مطالبہ
6 جنوری کو جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ یہ درخواست اس وقت دائر کی گئی جب مقدمے کی سماعت ختم ہونے کے قریب تھی اور اس معاملے کو پہلے عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا تھا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ ملزم ذہنی بیماری میں مبتلا نہیں ہے اور اس طرح کی سوچی سمجھی درخواست صرف مجرمانہ ذمہ داری سے چھٹکارا پانے کے لیے دائر کی گئی ہے۔
آج کی سماعت میں ظاہر کے والد اور شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ خان نے گزشتہ سماعت پر تفتیشی افسر عبدالستار کی جانب سے ریکارڈ کرائے گئے بیان پر بھی ان سے جرح کی۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت 24 جنوری تک ملتوی کر دی۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔
وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر
چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔
ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔
مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔
چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد
کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔
دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔
تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔
25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع
اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔
جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔