• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گزشتہ 21 دنوں سے سندھ اسمبلی کے باہر جماعت اسلامی کی جانب سے دھرنا دیا جارہا ہے۔ اس دھرنے کا بنیادی مقصد سندھ اسمبلی میں 11 دسمبر 2021ء کو منظور ہونے والا سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2021ء ہے جس کے خلاف سندھ کی تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر ہیں، ہاں مگر اس کے باوجود احتجاج مختلف پلیٹ فارمز پر کیا جارہا ہے۔

ایک طرف جماعت اسلامی کا دھرنا مسلسل 21 دن سے جاری ہے اور ممکنہ طور پر کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے یہ کراچی میں سب سے طویل دورانیے کا دھرنا بن چکا ہے، تو دوسری جانب وفاق میں حکومتی اتحاد کا حصہ رہنے والی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور گرینڈ ڈیموکریٹکس الائنس (جی ڈی اے) نے بھی 15 جنوری کو نہ صرف کراچی پریس کلب کے سامنے مشترکہ احتجاجی مظاہرہ کیا بلکہ فوارہ چوک پر علامتی دھرنا بھی دیا۔

اس اتحاد کی جانب سے حکومتِ سندھ کو خبردار کیا گیا کہ جلد از جلد اس قانون کو واپس لیا جائے۔ اس احتجاج میں موجود قائدین کی جانب سے کہا گیا کہ یہ احتجاج تو صرف ایک ٹریلر ہے، اگر بل واپس نہیں لیا گیا تو پھر جو احتجاج ہوگا وہ بل کی واپسی سے پہلے کسی بھی طور پر ختم نہیں ہوگا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے اتوار کے روز شاہراہ فیصل پر بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی—تصویر بشکریہ فیس بک
جماعت اسلامی کی جانب سے اتوار کے روز شاہراہ فیصل پر بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی—تصویر بشکریہ فیس بک

اس بل میں آخر ایسا کیا ہے جس کے خلاف تمام ہی جماعتیں سندھ حکومت کے خلاف ہوگئی ہیں، آئیے پہلے اس کو سمجھ لیتے ہیں۔

جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمٰن نے جہاں ایک طرف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے وہیں سندھ ہائی کورٹ میں اس بل کے خلاف پٹیشن بھی دائر کی ہوئی ہے۔ اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ موجودہ بل کے ذریعے سندھ حکومت نے مقامی حکومتوں سے پانی، بجلی، گیس، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ سمیت تمام اختیارات چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں، یہاں تک کہ کچرا اٹھانے اور ریونیو جنریشن کی سہولت بھی اب میئر کے پاس نہیں ہوگی۔

جماعت اسلامی کے سربراہ کہتے ہیں کہ یہ بل آئین کی شق (A) 140 کی خلاف ورزی ہے جس میں حکومتوں سے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا کہا گیا ہے مگر افسوس کہ ایسا کرنے کے بجائے رہے سہے اختیارات بھی لے لیے گئے ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی دفعات 14 اور 17 کی متعدد شقوں میں کی گئی ترامیم کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا جائے۔

یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ پاک سرزمین پارٹی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے بھی اس قانون کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہوئی ہے۔

ایک طرف یہ اپوزیشن جماعتیں ہیں جو اس قانون کے خلاف مسلسل احتجاج کررہی ہیں، تو دوسری طرف سندھ حکومت ہے جو اپنے فیصلے پر قائم ہے اور بل واپس لینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دے رہی۔

وزیرِ اطلاعات سعید غنی نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بات بہت واضح طور پر کہہ دی کہ اس صوبے کے عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت سے نوازا ہے اور جس جماعت کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہوتی ہے وہ ہر طرح کی قانون سازی کا حق رکھتی ہے۔

اس ساری صورتحال کے پش نظر، ہم نے کوشش کی کہ کیوں نہ دنیا کے کچھ ترقی یافتہ شہروں کی طرف رُخ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا وہاں بھی مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس نوعیت کا ہے؟ ان شہروں کی ترقی میں اس نظام کا کتنا کردار ہے اور وہاں موجود لوگ اس قانون سے کتنے خوش ہیں، تو آئیے ہمارے ساتھ ساتھ آپ بھی چند ترقی یافتہ شہروں سے متعلق جانیے۔

عارف کسانہ، اسٹاک ہوم

سوئیڈن میں ہر 4 سال بعد عام انتخابات ہوتے ہیں۔ یہاں انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں اور لوگ افراد کے بجائے پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، اگر کسی پارٹی کے ووٹوں کی تعداد 4 فیصد سے کم ہو تو وہ پارلیمان میں نہیں آسکتی۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ نیشنل اسمبلی، ریجنل یا صوبائی اسمبلی اور لوکل گورنمنٹ یا مقامی کونسل جنہیں سوئیڈش زبان میں ’کمیون‘ کہتے ہیں، ان تینوں کے انتخابات ایک ہی دن منعقد ہوتے ہیں۔ سوئیڈن کا شہری ان تینوں کے لیے ووٹ دے سکتا ہے جبکہ سوئیڈن کا پرمننٹ ویزا رکھنے والا فرد محض ریجنل اسمبلی اور مقامی حکومت کے لیے ووٹ دینے کا ہی اہل ہوتا ہے۔

یہاں کا بلدیاتی نظام اتنا شاندار ہے کہ لوگوں کے 90 فیصد مسائل بلدیہ سے ہی متعلق ہوتے ہیں اور لوگوں کی سب سے زیادہ دلچسپی بھی بلدیاتی انتخابات میں ہوتی ہے۔ پورے سوئیڈن میں کل 290 مقامی کونسلز ہیں جو مکمل طور پر بااختیار ہیں۔ یہاں کی سپریم کورٹ، مرکزی پارلیمنٹ اور وزیرِاعظم بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات یا مقامی حکومت کو معطل نہیں کرسکتے۔

یہاں کی مقامی حکومتوں کے اختیارات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں ٹیکس عائد کرنے کا اختیار بھی مقامی حکومت کے پاس ہے۔ ایک سوئیڈش شہری کہیں بھی نوکری کرتا ہو لیکن وہ جس لوکل کونسل میں رہتا ہے وہ اس کونسل کے مطابق ٹیکس ادا کرتا ہے۔ لوگوں کی آمدنی اور کاروبار سے ٹیکس لینے کا فیصلہ ہر لوکل کونسل اپنے مطابق کرتی ہے اور ملک بھر میں یہ شرح 28 سے 33 فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ ٹیکس مقامی حکومت جمع کرتی ہے اور اس میں سے اپنے اخراجات علیحدہ کرنے کے بعد ایک حصہ مرکز کو بھجوا دیا جاتا ہے۔

سوئیڈن میں عوام کو مرکزی حکومت سے زیادہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں دلچسپی ہوتی ہے—تصویر: عارف کسانہ
سوئیڈن میں عوام کو مرکزی حکومت سے زیادہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں دلچسپی ہوتی ہے—تصویر: عارف کسانہ

سوئیڈن میں ٹیکس عائد کرنے اور جمع کرنے کا اختیار بھی مقامی حکومتوں کے پاس ہوتا ہے—تصویر: عارف کسانہ
سوئیڈن میں ٹیکس عائد کرنے اور جمع کرنے کا اختیار بھی مقامی حکومتوں کے پاس ہوتا ہے—تصویر: عارف کسانہ

یہاں تینوں سطحوں پر اختیارات تقسیم کردیے گئے ہیں۔ مقامی صحت و صفائی کے اختیارات، اسکولز، بزرگوں کی نگہداشت، بجلی و پانی کا نظام اور مقامی ضرورت کی دیگر چیزوں کے اختیارات مقامی حکومت کے پاس ہوتے ہیں اور اس کے تمام محکموں کا سربراہ میئر ہوتا ہے۔ یہاں صوبے یا ریجن کے اختیارات پبلک ٹرانسپورٹ یا بڑے اسپتالوں کے انتظام جیسے معاملات سے متعلق ہوتے ہیں جبکہ مرکزی حکومت کے پاس دفاع، خارجہ اور اس جیسے دیگر اختیارات ہوتے ہیں۔ یہ تینوں حکومتیں ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتیں۔

یہاں کی مقامی حکومت منتخب ممبران پر مشتمل ہوتی ہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرکز یا ریجن میں کسی ایک جماعت کی حکومت ہوتی ہے جبکہ مقامی حکومت میں کوئی دوسری جماعت ہوتی ہے۔ اسی طرح مقامی عدالتوں اور ہائی کورٹس میں مقامی کونسلز کے ممبران کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ یہ افراد مقدمات میں اپنی رائے دیتے ہیں اور وہ رائے مانی بھی جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو اگر مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات نہ ہوں تو یہاں کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔ میری نظر میں یہ بنیادی جمہوریت کا ایک بہترین نظام ہے۔

مہوش ظفر، برلن

جرمنی کے 16 صوبے ہیں جس میں سے 3 شہر ایسے ہیں جن کو صوبے کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں سے ایک شہر برلن بھی ہے۔ برلن تقریباً 50 لاکھ آبادی کے ساتھ جرمنی کا سب سے بڑا شہر ہے اور دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صوبے کا درجہ بھی رکھتا ہے، اسی لیے جرمنی میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

برلن کی صوبائی اسمبلی کو سینیٹ کہتے ہیں جس کے انتخابات ہر 5 سال بعد ہوتے ہیں۔ شہر کا سربراہ میئر کہلاتا ہے اور اس وقت برلن کی میئر ایک خاتون ہیں جن کا نام فرانسسکا گف فائے ہے۔ اس میئر کی اپنی ایک کابینہ ہوتی ہے جس میں 10 سے 15 افراد شامل ہوتے ہیں اور ہر کابینہ کے رکن کو سینیٹر کہا جاتا ہے۔ یہاں کی وزارتوں میں داخلہ، معاشیات، قانون، تعلیم، ماحولیات، صحت، ثقافت اور فنانس قابلِ ذکر ہیں۔

دیگر تمام صوبوں کی طرح برلن کا بھی اپنا ایک بجٹ ہوتا ہے جو ہر سال برلن کی پارلیمنٹ سے پاس کروایا جاتا ہے اور اسے یہاں کے انتظامی اور ترقیاتی امور کو چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بجٹ تقریباً 30 ارب یورو ہوتا ہےجو صرف شہر پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔

جرمنی میں برلن شہر کو ایک صوبے کا درجہ حاصل ہے—تصویر: مہوش ظفر
جرمنی میں برلن شہر کو ایک صوبے کا درجہ حاصل ہے—تصویر: مہوش ظفر

برلن کے میئر کی اپنی 10 سے 15 رکنی کابینہ ہوتی ہے—تصویر: مہوش ظفر
برلن کے میئر کی اپنی 10 سے 15 رکنی کابینہ ہوتی ہے—تصویر: مہوش ظفر

جرمنی کا ٹیکس نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ ٹیکس وصولی کے بعد شہروں کو ایک بڑا حصہ واپس مل جاتا ہے جو وہ اپنے ہی شہریوں پر خرچ کرتے ہیں۔ برلن میں اسکولوں کے بچوں کو پورے شہر میں سفری سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں اور پہلی جماعت سے لے کر جامعات تک مفت تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔

ایک اضافہ کرنا ضروری ہے کہ برلن کا میئر مکمل طور پر بااختیار ہوتا ہے۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی، تعلیم اور ریوینیو جیسے تمام معاملات پر میئر کی مکمل گرفت ہوتی ہے۔ برلن کے لوگ نہ صرف اس نظام سے خوش ہیں بلکہ اپنی حکومتی پارٹی سے اس حد تک مطمئن ہیں کہ 12 سال سے ایک ہی پارٹی کا میئر چلا آرہا ہے۔

احمد شاہین، لندن

برطانیہ کے مختلف حصوں میں آبادی، علاقے اور مقامی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقامی حکومتوں کے لیے مختلف نظام وضع کئے گئے ہیں۔ ان نظاموں کو کاونٹی کونسل، ڈسٹرکٹ کونسل، یونیٹری کونسل، میٹروپولیٹن ڈسٹرکٹ اور لندن بارو کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ آسانی کے لیے ان کو انتظامی یونٹس بھی کہا جاتا ہے اور پورے برطانیہ میں 333 یونٹ موجود ہیں۔

لندن شہر کو 32 باروز میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ بارو اپنے علاقے میں مقامی حکومتوں کا نظام چلانے کی ذمہ دار ہیں۔ اس میں ہاؤسنگ، کچرا اٹھانا، پارکنگ، اسکول، سوشل کیئر اور پبلک ہیلتھ کی سہولیات فراہم کرنا شامل ہیں جبکہ یہ باروز رہائشیوں سے کونسل ٹیکس جمع کرنے کی بھی ذمہ دار ہیں جسے مقامی سہولیات کی فراہمی پر خرچ کیا جاتا ہے۔

لندن شہر 32 باروز میں یا انتظامی یونٹس میں تقسیم ہے—تصویر: احمد شاہین
لندن شہر 32 باروز میں یا انتظامی یونٹس میں تقسیم ہے—تصویر: احمد شاہین

مجموعی طور پر لندن شہر کا انتظام مئیر لندن کی سربراہی میں گریٹر لندن اتھارٹی دیکھتی ہے—تصویر: احمد شاہین
مجموعی طور پر لندن شہر کا انتظام مئیر لندن کی سربراہی میں گریٹر لندن اتھارٹی دیکھتی ہے—تصویر: احمد شاہین

اس کے علاوہ مجموعی طور پر لندن کا نظام جیسے پولیس، فائر بریگیڈ، ٹرانسپورٹ اور اسٹریٹجک پلاننگ کے لیے گریٹر لندن اتھارٹی الگ سے موجود ہے جس کا انتظام میئر آف لندن اپنی 25 رکنی لندن پارلیمنٹ کے ساتھ سنبھالتا ہے۔

میئر آف لندن 5 سال کے لیے منتخب ہوتا ہے اور اسے لندن کے رہائشیوں کی جانب سے، لندن اسمبلی کے ممبران کے ہمراہ براہِ راست انتخاب کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ میئر آف لندن کے پاس کونسل ٹیکس بڑھانے اور ٹرانسپورٹ کے کرائیوں میں تبدیلی کرنے کا اختیار بھی موجود ہوتا ہے۔

تقریباً تمام کونسلز ہی رہائشیوں کو ضروری معلومات فراہم کرنے اور اپنی سرگرمیوں سے آگاہ رکھنے کے لیے ہفتہ وار یا ماہانہ نیوز لیٹر جاری کرتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ مطبوعہ صورت یا ای میل کے ذریعے شہریوں کو ان کے علاقے کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رکھا جائے۔ جیسے ہماری کونسل میں اگر کسی ہفتے کچرا اٹھانے کا مقررہ وقت کسی وجہ سے تبدیل ہورہا ہو تو نیوز لیٹر کی مدد سے پیشگی آگاہ کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تفریحی سرگرمیوں، مختلف معاملات پر عوام کی رائے لینے اور مقامی سطح پر کیے جانے والے جرمانوں کی تفصیلات بھی اس نیوز لیٹر میں شامل کردی جاتی ہیں۔

ثنا تمجید، پرتھ

پرتھ کے لوکل باڈی کونسل ممبرز میں میئر اور کونسلرز شامل ہوتے ہیں۔ میئر اور کونسل ممبرز کو انفرادی طور پر فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ بحیثیت مجموعی کرتے ہیں اور اس سے پہلے مشاورت اور ووٹنگ ہوتی ہے۔ کونسلرز چونکہ لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں اور انہی میں سے منتخب ہوکر آتے ہیں اس وجہ سے وہ لوگوں کے مسائل کو کونسل میٹنگ میں اٹھاتے ہیں۔ ان میٹنگز میں کام کے حوالے سے ترجیحات کا بھی تعین ہوتا ہے۔ چونکہ کونسلر اپنے علاقے کا مقامی فرد ہوتا ہے اس وجہ سے اسے علم ہوتا ہے کہ اس کے علاقے کے کیا مسائل ہیں اور ان میں سے کن کو ترجیح دینی چاہیے۔

پرتھ میں کچھ بڑی شاہراہوں اور فری ویز کے علاوہ تمام سڑکوں کا انتظام شہری حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان سڑکوں کی ہر 3 سال بعد جانچ بھی کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی فٹ پاتھ، سائیکل ٹریک اور معذور افراد کی آمد و رفت کے خصوصی راستوں کا انتظام بھی شہری حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسٹریٹ لائٹس اور سوئچ بورڈ لگانا، مہینے میں دو مرتبہ ان کی جانچ کرنا اور ان کی مرمت کرنا بھی شہری حکومت کا کام ہے۔

پرتھ میں بارشیں صرف موسمِ سرما میں ہوتی ہیں اس وجہ سے برساتی نالوں کے ذریعے بارش کے پانی کو جمع کیا جاتا ہے اور پھر اس پانی کو سال بھر پارکوں اور سڑکوں کے کنارے لگے پودوں کو پانی دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ برساتی نالے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان برساتی نالوں اور اس کے ساتھ سیوریج کا مکمل نظام اور ان کے حوالے سے کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی مقامی حکومت ہی کی ہوتی ہے۔

یہاں کسی بھی گھر یا تعمیراتی منصوبے کی منظوری بھی شہری حکومت ہی فراہم کرتی ہے۔ اگر کسی تعمیراتی منصوبے سے برساتی نالے متاثر ہورہے ہوں تو شہری حکومت اس منصوبے کی اس وقت تک اجازت نہیں دیتی جب تک اس مسئلے کو حل نہ کرلیا جائے۔

پرتھ میں برساتی نالوں کے ذریعے جمع شدہ پانی کو سال بھر پارکوں اور پودوں کو پانی دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے—تصویر: ثنا تمجید
پرتھ میں برساتی نالوں کے ذریعے جمع شدہ پانی کو سال بھر پارکوں اور پودوں کو پانی دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے—تصویر: ثنا تمجید

پرتھ میں پلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، یہاں پلوں کی تعمیر کی منظوری دینا اور ہر دو سال بعد پلوں کی جانچ کرنا بھی شہری حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے دیواروں پر چاکنگ کو روکنے کے لیے شہری حکومت کی جانب سے گریفٹی کنٹرول کا محکمہ بھی قائم کیا گیا ہے۔

یہاں عوامی مقامات پر امن و امان کو برقرار رکھنے اور عوام کی حفاظت کی ذمہ داری بھی مقامی حکومت کی ہے جس کے لیے عوامی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لیے لگائے جانے والے ٹریفک سگنلز اور ٹریفک کیمروں کا کنٹرول بھی شہری حکومت کے پاس ہوتا ہے۔

پرتھ میں قانون نافذ کرنے والے دو ادارے یعنی ڈبلیو اے پولیس اور رینجرز مقامی حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ڈبلیو اے پولیس کے ذمہ پولیسنگ سے متعلق تمام امور ہوتے ہیں جبکہ رینجز کا کام یہاں مختلف پارکوں، سڑکوں اور گلیوں میں گشت کرکے چھوٹی موٹی چوریوں اور دیگر جرائم کو روکنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کانسرٹ یا دیگر بڑے پروگرامات میں ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنا اور شہریوں اور سیاحوں کے تحفظ اور سہولت کو یقینی بنانا بھی رینجرز کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

رمضان رفیق، ڈنمارک

آج کا ڈنمارک 5 ریجنز، جنہیں صوبے کہا جا سکتا ہے، اور 98 بلدیات پر مشتمل ہے، ان کو پاکستان کی حد تک کسی تحصیل سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ پچھلے 9 سال مجھے ریجن شی لینڈ میں رہنے کا موقع ملا، اور میری بلدیہ کا نام کھوہ (køge) تھا۔ ڈنمارک میں بلدیات کا نظام بہت اچھا ہے اور پاکستان جیسے ممالک کے لیے اس میں سیکھنے کے کئی مواقع ہیں۔

ڈنمارک کی بنیادی شناخت کانمبر ہے، جسے پرسنل نمبر کہا جاتا ہے، اور یہ ہر شہری کو دیا جاتا ہے۔ یہ ایک مرکزی نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے، کوئی بھی قومی ادارہ آپ کی اجازت کے بعد آپ کی تمام بنیادی معلومات کے بارے میں آگہی رکھتا ہے۔ یہی پرسنل نمبر ڈاکٹر، ٹیکس، نوکری، بینک، کاروبار، گاڑی اور دیگر تمام معاملاتِ زندگی میں ایک کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی بالغ شخص اس پرسنل نمبر کی موجودگی میں مقامی اور ریجن کی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے، لیکن قومی سیاست میں حصہ لینے کے لیے آپ کی قومیت کا ڈینش ہونا ضروری ہے۔

ڈنمارک کا سیاسی ڈھانچہ تین انتظامی حصوں میں تقسیم ہے، جس میں ’کمیون‘ یا بلدیہ سب سے بنیادی حصہ ہے۔ آپ نے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی جیسا نعرہ ضرور سن رکھا ہوگا، دراصل یہاں پر حقیقت میں ایک بلدیہ اپنے رہائشئیوں کے معاملات پر بہت اختیار رکھتی ہے۔

کوئی کمیون اپنی آبادی کے حساب سے اپنے نمائندگان کا انتخاب کرتی ہے، یعنی مختلف بلدیات میں نمائندگان کی تعداد مختلف ہوسکتی ہے۔ یہ نمائندگان مختلف پارٹیوں کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ ڈنمارک میں سیاست کے دو رنگ بہت نمایاں ہیں، نیلا رنگ جو بائیں بازوں کی جماعتوں کی نشاندہی کرتا ہے، اور سرخ رنگ دائیں بازو کی جماعتوں کو ظاہر کرتا ہے۔

کسی بھی کمیون میں اس کے انتظامات چلانے والی کئی ایک کمیٹیاں یا بورڈ بنائے گئے ہوتے ہیں جو بنیادی طور پر بلدیہ کے کاموں کی نگرانی کرتے ہیں۔

یہ بھی کسی بلدیہ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ کس طرح کا بنیادی ڈھانچہ بنانا چاہتی ہے، کتنی کمیٹیاں یا بورڈ بنانا چاہتی ہے، اور ان کے نام کیا ہوں گے۔ قانونی طور پر ایک اسٹینڈنگ کمیٹی اور اقتصادی کمیٹی بنانا ہر کمیون کی ذمہ داری ہے لیکن مختلف کاموں کو بہتر انداز میں کرنے کے لیے ہر کمیون میں مختلف ناموں کے ساتھ درج ذیل کمیٹیاں پائی جاتی ہیں۔

اکنامک بورڈ

بلدیہ اپنے علاقے کے لوگوں پر ٹیکس لگانے میں خود مختار ہے، اور مختلف صوبوں کی بلدیات اپنے حساب سے ٹیکس کی شرح کو کم یا زیادہ کرسکتے ہیں۔ ہر بلدیہ ایک سال کا مکمل تفصیلی بجٹ تیار کرتی ہے اور آنے والے 3 سال کے بجٹ کا تخمینہ پیش کرتی ہے اور ہر سال اس امر کو دوہرایا جاتا ہے۔ یہ بورڈ کسی بھی علاقے کی کمیون میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور عمومی طور پر ممبران کے علاوہ میئر اس کمیٹی کا ضرور حصہ ہوتا ہے۔

تعلیم اور نوجوان

عمومی طور پر نرسری اسکول سے لے کر 9ویں جماعت تک تعلیم اور اس سے متعلقہ سبھی امور کا فیصلہ کمیون کرتی ہے، نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں، چھٹیاں اور نوجوانوں کی نشوونما سے متعلق سبھی امور کا فیصلہ اس طرز کا بورڈ یا کمیٹی کرتی ہے۔

ڈنمارک میں مقامی حکومت یا بلدیہ کا ’کمیون کہا جاتا ہے—تصویر: رمضان رفیق
ڈنمارک میں مقامی حکومت یا بلدیہ کا ’کمیون کہا جاتا ہے—تصویر: رمضان رفیق

21 اور 22 اپریل کو ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں واقع قبرستان میں چیری کے پھولوں پر بہار دیکھنے کی تقریب منائی گئی—تصویر رمضان رفیق
21 اور 22 اپریل کو ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں واقع قبرستان میں چیری کے پھولوں پر بہار دیکھنے کی تقریب منائی گئی—تصویر رمضان رفیق

بوڑھے، اور سوشل ویلفیئر بورڈ

ایک بلدیہ کے اندر رہنے والے بوڑھے، ان لوگوں کے رہنے کا مقامی سینٹر، یا اگر وہ اپنے گھر میں رہنے کا فیصلہ کریں تو بلدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بوڑھوں کو گھروں میں خدمت کی سہولت مہیا کریں، اور یہاں پر یہ بلدیہ کی ذمہ داری ہے کہ بوڑھوں کی ضروریاتِ زندگی، حتٰی کے ان کے بستر کی چادر کی تبدیلی تک کا انتظام کرے۔ اس کے لیے بلدیہ دو طرح کی خدمات میہا کرتی ہے۔ ایک پلائی یم یعنی ایسی جگہ جہاں مشترکہ طور پر ایک ہوسٹل کی طرز پر بوڑھوں کو رکھا جائے یا دوسری یم پلائی یعنی ان کو اپنے ہی گھر میں تمام ضروریات پوری کرنے کا سامان میہا کیا جائے۔

اسپورٹس بورڈ

کچھ بلدیات میں یہ بورڈ کسی تعلیمی بورڈ کے ساتھ مشترک ہو سکتا ہے، لیکن کئی ایک میں علیحدہ بھی ہوتا ہے مقامی سطح پر اسپورٹس کا انعقاد، اسکولز میں اسپورٹس کو رائج کروانا، اسپورٹس کلب کے لیے سامان، اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا اس طرز کی کمیٹی یا بورڈ کا کام ہوتا ہے۔

تکنیکی اور ماحولیاتی بورڈ

بلدیہ میں موجود کسی عمارت، سڑک یا اسٹرکچر کی نگہداشت اور نگہبانی، اس بورڈ کی ذمہ داری ہے۔ سڑکوں کی مرمت، نئی سڑک بنانا، پارک بنانا، درخت لگانا، ماحولیات کی پالیسی بنانا اور اس طرز کے سبھی کاموں کی ذمہ دار بلدیہ کا یہ بورڈ ہی ہوتا ہے۔

صحت کے متعلق سبھی معاملات ریجنز کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ سکینڈری ایجوکیشن، ٹرانسپورٹ کا نظام اور کسی حد تک ماحولیات کے معاملات بھی ریجنز کے حصے میں آتے ہیں۔ ریجن کے لیے بھی بلدیہ کی طرز پر انتخاب ہوتے ہیں۔

محمد عمید فاروقی

عمید فاروقی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
فہیم پٹیل

فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Ahmad Jan 20, 2022 05:35pm
Very nice and informative article, thanks for sharing, hope our elected will learn from it.
Pakistan First-Karachi Firdt Jan 20, 2022 06:31pm
Pakistan First......Karachi First, sadly PPP in Sindh and Karachi failed to deliver good government, it's time now for a change in both Sindh Government and Karachi local government. I support JI protest for the rights for a better government in the Sindh province and mega city Karachi local government.
محمد جنید زبیری Jan 20, 2022 08:10pm
دنیا کے چند ترقی یافتہ شہروں کا تقابل پیش کیاگیا ہے جو بہت اچھا اور معلوماتی ہے، مگر پاکستان اور کراچی کا معاملہ کچھ اور ہے، یہاں جو حکومت آتی ہے وہ چاہتی ہی نہیں کہ مقامی حکومتوں کا نظام ہو، اگر ہو بھی تو اپنی مرضی کا، اور کراچی تومیگاسٹی ہے جس کی آبادی تین کروڑ سے زائد ہے اورمردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ظاہر کی گئی ہے ،پہلے مردم شماری درست کی جائے اس کے بعد دیگر چیزیں صحیح ہوسکتی ہیں
KHAN Jan 20, 2022 10:18pm
یہ کراچی ہے! پاکستان کا سب سے بڑا شہر مگر کا بلدیاتی نظام موجود نہیں۔ کیونکہ قومی اور صوبائی حکومتیں آئین کی خلاف ورزی کرکے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ عدالتی احکامات پر بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے ہیں تاہم حکمران جماعتیں ان لوگوں کو سامنے لانا چاہتی ہے جو ڈھکن کھول کر ان کو پانی پلائے۔ بلدیاتی نمائندوں کے پاس صفائی، امن و امان، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، کھیل، ٹیکس وصولی، ہاؤسنگ، کچرا اٹھانا، پارکنگ، پانی کی فراہمی و نکاسی، سوشل کیئر اور پبلک ہیلتھ سے متعلق کوئی اختیار نہیں۔ ان کو جلسوں کے لیے لوگوں کو لانے اور وہاں جیے جیے کے نعرے لگانے کی ذمےداری سپرد کی جاتی ہے۔