عدالت عظمیٰ نے مراد علی شاہ کے خلاف کیس میں معاونت طلب کرلی
سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے خلاف نااہلی کیس میں فریقین سے معاونت طلب کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ دہری شہریت کے باعث ہونے والی نااہلی تاحیات یا عارضی مدت کے لیے ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل بینچ، جس میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین شامل ہیں، نے آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت دہری شہریت اور اقامہ رکھنے پر مراد علی شاہ کی نااہلی کے لیے دائر نظر ثانی درخواست کی سماعت کی۔
عدالت نے تنازع میں شامل فریقین سے اس سوال سے متعلق بھی تیاری کرنے کا کہا ہے کہ غیر ملکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے پر نااہل شخص کو دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔
عدالت کے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب درخواست گزار روشن علی بریرو، جو وزیر اعلیٰ سندھ کے سیاسی حریف ہیں، نے وکیل حامد خان کے توسط سے دائر درخواست پر کیس ملتوی کرنے کی درخواست کی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی نااہلی کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر
سپریم کورٹ نے 6 نومبر 2019 کو نظرثانی درخواست پر دو، ایک کی اکثریت سے مراد علی شاہ کو نوٹس جاری کیا تھا۔
اسی سال 23 جنوری کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اسی درخواست گزار کی درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا تھا کہ سیاسی حریفوں کو مناسب فورمز پر معاملے کا حل نکالنا چاہیے اور ریٹرننگ افسر کے 6 اپریل 2013 کے اس حکم پر، جس میں مراد علی شاہ کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، اس پر بھی یہ کہہ کر سوال اٹھایا کہ ریٹرننگ افسر کوئی عدالتی فورم نہیں ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال ،جنہوں نے فیصلہ تحریر کیا، مزید کہا کہ مراد علی شاہ نے 29 ستمبر 2012 کو شہریت چھوڑنے کے لیے اپلائی کیا اور 18 جولائی 2013 کو کینیڈین حکام کی جانب سے شہریت کی منسوخی کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
انہوں نے لکھا کہ آر او نے اپنے فیصلے میں کسی خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی، اس لیے اس کا آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی کا حکم غیر مؤثر ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کیونکہ مراد علی شاہ پر آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت تاحیات پابندی عائد نہیں ہوتی اس لیے وہ عام انتخابات 2018 لڑنے کے اہل تھے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی، جو کہ اس وقت تین رکنی بینچ کے رکن تھے، نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا اور کئی جواب طلب آئینی سوالات اٹھائے تھے۔
مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: مراد علی شاہ پر 30 جون کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ
انہوں نے جو سوالات اٹھائے تھے وہ یہ تھے کہ کیا آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت نجی مدعا علیہ (مراد علی شاہ) کی نااہلی عدالت نے منظور کی تھی یا کسی دوسرے فورم نے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ان کی نااہلی، اگر کوئی ہے تو، سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت عظمیٰ کے سابقہ فیصلوں میں سے ایک میں درج اصول کے لحاظ سے مستقل ہو گی؟
کیا آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کو استعمال کرنے اور انتخابی قوانین کے تحت متبادل طریقہ اختیار کرنے میں درخواست گزار کی جانب سے عدم اعتماد کی وجہ سے درخواست کو قابل سماعت قرار دیا گیا یا نہیں؟
انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا یہ عدالت شیر عالم خان اور راجا شوکت عزیز بھٹی کے مقدمات میں طے شدہ حکم نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے نجی مدعا علیہ کی نااہلی کو نظر انداز کر سکتی ہے؟
وکیل محمد وقار رانا کے توسط سے دائر نظرثانی درخواست میں، جس میں حامد خان کی جانب سے دلائل دیے گئے، روشن علی بریریو نے عدالت عظمیٰ سے 23 جنوری 2019 کا حکم کالعدم قرار دینے کی درخواست کی اور کہا کہ اس فیصلے میں کئی قانونی غلطیاں اور حقائق ریکارڈ پر آچکے ہیں جس سے ایسا فیصلہ سامنے آیا جس سے انصاف کا قتل ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی بینک اکاؤنٹس: نیب نے مراد علی شاہ کے خلاف ریفرنس دائر کردیا
نظر ثانی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 23 جنوری 2019 کے حکم پر قانون کے مفاد میں نظر ثانی ہونی چاہیے، خاص طور پر اس لیے کیونکہ بینچ کے ایک رکن نے کہا تھا کہ یہ 20 جولائی 2018 کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے فٹ کیس ہے۔
درخواست گزار نے سوال کیا کہ کیا ہائی کورٹ کا جج، جس نے الیکشن ٹربیونل کے رکن کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اور بعد میں ہونے والی کارروائی میں متعلقہ حکم نامہ بھی جاری کیا ہو، سپریم کورٹ میں جج تعینات ہونے کے بعد اس پر بھروسہ اور تشریح کر سکتا ہے؟ اس کا اپنا پہلا حکم اس طرح سے سپریم کورٹ کے پہلے کے فیصلے کو کالعدم کر دے گا۔
پٹیشنر نے درخواست کی کہ جب گرانٹ آف لیو کے معاملے میں فل بینچ کے ججز کے درمیان اختلاف رائے پایا جائے تو کیا اس صورت میں قانون کے مطابق اپیل کو گرانٹ لیو دینا جائز اور ٹھیک ہوگا۔
نظرثانی درخواست نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ جب سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی کی بنیادوں کا نوٹس لینے کے بعد ایک کیس میں ریٹرننگ افسر کے حکم کو برقرار رکھا تھا تو کیا اسے سپریم کے کسی اور حکم سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔