• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

افغانستان کی شازیہ پاکستان میں رہ کر تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہیں

شائع January 18, 2022
’ہمارا کابل سب سے الگ اور خوبصورت افغان شہر تھا، میں نہیں جانتی کہ میں وہاں دوبارہ جاسکوں گی یا نہیں، لیکن میں پڑھنا ضرور چاہتی ہوں‘—تصویر بشکریہ شازیہ
’ہمارا کابل سب سے الگ اور خوبصورت افغان شہر تھا، میں نہیں جانتی کہ میں وہاں دوبارہ جاسکوں گی یا نہیں، لیکن میں پڑھنا ضرور چاہتی ہوں‘—تصویر بشکریہ شازیہ

15اگست 2021 کا دن اب افغان تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور دنیا کے سامنے طالبان حکومت ایک حقیقت بن چکی ہے۔ لیکن چونکہ اب تک بین الاقوامی سطح پر اس حکومت کو قبول نہیں کیا گیا ہے اس لیے افغان عوام اس پوری صورتحال سے براہِ راست متاثر ہورہے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق طالبان حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کردیا ہے جس میں کسی بین الاقوامی ادارے کی مدد شامل نہیں ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے معاشرے میں کئی تبدیلیاں محسوس کئی گئیں ہیں۔ جس طرح ہم اوپر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ چونکہ دنیا نے اب تک اس حکومت کو تسلیم نہین کیا ہے اس وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ وہاں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ صحت، تعلیم اور روزگار کے بڑے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ لہٰذا دنیا کے لیے اب یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ وہ اس جانب توجہ دے۔ کم از کم اس وقت افغان معاشرے کی بقا کی ذمہ داری دنیا اور بڑی طاقتوں پر ہی ہے۔

طالبان افغان صدارتی محل میں—تصویر: اے پی
طالبان افغان صدارتی محل میں—تصویر: اے پی

یہ تو وہ عمومی باتیں تھیں جو ہم نے آپ کے سامنے پیش کیں، لیکن وہاں زمینی حقائق کیا ہیں اور لوگ وہاں کس مشکل سے دوچار ہیں، اس حوالے سے ہمیں کابل شہر کی کہانی سنا رہی ہیں 21 سالہ شازیہ [نام تبدیل کیا گیا ہے]۔

شازیہ کا جہاز 18ستمبر 2021 کو دن 11 بجے کابل سے اڑا اور 45 منٹ بعد اسلام آباد ایئرپورٹ اترا۔ شازیہ نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے ایئرپورٹ پر اتر کر بہن کو ایران میسج کیا کہ میں پاکستان پہنچ گئی ہوں‘۔ شازیہ نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ’میرا ویزا ختم ہونے والا ہے اور میں حکومتِ پاکستان سے درخواست کرتی ہوں کہ میرے ویزے کی مدت بڑھائی جائے تاکہ میں پاکستان میں اپنی تعلیم پوری کرسکوں‘۔

جب شازیہ سے ملاقات ہوئی تو ہم حیران تھے کہ اتنی چھوٹی لڑکی کس طرح تنہا افغانستان سے باہر نکل سکتی ہے؟ وہ آخر کیوں پاکستان میں اپنا مستقبل محفوظ بنانا چاہتی ہے؟

شازیہ ٹوٹی پھوٹی اردو بولتی ہیں، وہ بھی انڈین فلموں کی وجہ سے۔ ہم نے اس تحریر میں کوشش کی ہے کہ آپ تک شازیہ اور ان جیسی لڑکیوں کی کہانی پہنچائی جاسکے۔

کابل کی رہائشی شازیہ نے ہمیں بتایا کہ وہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد کابل میں دکان چلاتے ہیں اور والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ ان کا کوئی بھائی نہیں لیکن تین بہنیں ہیں جن میں سے دو کی شادی ہوچکی ہے۔

شازیہ کے مطابق ’ہم طالبان سے پہلے بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ ہنگامے اور دھماکے ہوتے تھے لیکن زندگی چل رہی تھی۔ باہر دکانیں اور بازار کھلے رہتے تھے۔ یعنی ان ہنگاموں میں بھی ہم اپنے ملک میں ہی رہنا چاہتے تھے۔ میں انٹر کر رہی تھی اور اسکول ہاسٹل میں رہتی تھی۔لیکن طالبان کی آمد کے بعد مجھے اپنے خاندان کو چھوڑ کر یہاں آنا پڑا ہے‘۔

شازیہ کابل کی رہائشی ہیں اور ان کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے—تصویر بشکریہ شازیہ
شازیہ کابل کی رہائشی ہیں اور ان کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے—تصویر بشکریہ شازیہ

اب میری سہیلیاں کہتی ہیں کہ ’ہمیں نہیں معلوم، ہمارا افغانستان میں مستقبل کیا ہوگا۔ تعلیم کا کیا ہوگا۔ وہاں ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے۔ روپے کی قیمت مسلسل گرتی جارہی ہے‘۔

شازیہ نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

شازیہ چند ماہ سے اسلام آباد میں ہیں۔ پاکستان آنے کے فیصلے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کی آمد کے بعد میرے والدین بھی ڈر گئے تھے اور وہ میری بھی شادی کردینا چاہتے تھے۔ میں ابھی شادی کے لیے تیار نہیں تھی۔ میں نے 2021ء میں ہائی اسکول سے گریجویٹ یعنی انٹر کیا ہے۔ میں پڑھنا چاہتی تھی۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اسکالرشپ حاصل کرکے میں پڑھنے کے لیے باہر چلی جاؤں گی۔ میرا مستقبل اس طرح اور محفوظ ہوجائے گا۔ مگر جب میرا رزلٹ نکلا تو طالبان آچکے تھے۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے میں اپنا اسکول سرٹیفیکٹ بھی نہیں لے سکی‘۔

شازیہ مزید بتاتی ہیں کہ ’شادی کے دباؤ اور طالبان کی وجہ سے میں نے افغانستان اور اپنا خاندان چھوڑ دیا۔ پاکستان آنے میں میری ایک بہن اور ایک دوست نے مدد فراہم کی۔ میں ایک ہفتے پہلے ہی گھر چھوڑ کر اپنی سہیلی کے گھر چلے گئی تھی، اور اس دوست کے خاندان نے ہی مجھے ایئرپورٹ پہنچایا۔

شازیہ کے مطابق وہ انٹر کر رہی تھیں اور ہاسٹل میں رہتی تھیں لیکن طالبان کے آنے کے بعد انہیں ملک چھوڑنا پڑا—تصویر بشکریہ شازیہ
شازیہ کے مطابق وہ انٹر کر رہی تھیں اور ہاسٹل میں رہتی تھیں لیکن طالبان کے آنے کے بعد انہیں ملک چھوڑنا پڑا—تصویر بشکریہ شازیہ

تعلیمی بندشیں

اس حوالے سے شازیہ کا کہنا ہے کہ ’اب خبریں آرہی ہیں کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پالیسی بنا رہے ہیں۔ جلد ہی تعلیمی ادارے کھول دیے جائیں گے۔ لڑکوں کے لیے اور بچیوں کے لیے تو تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں لیکن لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول اور کالج و یونیورسٹی نہیں کھل سکے، اور نہ ہی خواتین اساتذہ کو اسکول آنے کی اجازت ہے‘۔

جب ہم نے شازیہ سے جاننے کی کوشش کی کہ وہ اپنے اسکول سے اسناد لینے کیوں نہیں گئیں تو انہوں نے پُراعتماد انداز میں بتایا کہ ’میں اپنی سہیلیوں، بہنوں اور اساتذہ سے مسلسل رابطے میں ہوں۔ اگر کبھی اسکول کھلا تو مجھے میرا سرٹیفیکیٹ مل جائے گا۔ ابھی تو اس کے کوئی آثار نہیں‘۔ میری ٹیچر نے بتایا کہ وہ اسکول نہیں جا رہیں کیونکہ اسکول بند ہیں اور وہاں لڑکیوں کی تعلیم کا مستقبل کیا ہوگا، یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔

سماجی تبدیلیاں

اس حوالے سے شازیہ نے بتایا کہ ’کابل کے حالات سمجھنے کے لیے اتنا جان لیں کہ پچھلے مہینے میری ایک بہن اپنے خاندان کے ساتھ ایران منتقل ہوچکی ہے۔ خاص کر لڑکیاں وہاں خود کو سب سے زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں، اور اب ایسا لگتا ہے کہ خواتین وہاں شاید کبھی نوکری نہ کرسکیں‘۔

شازیہ نے فکر مندی کے ساتھ بتایا کہ ’پاکستان آنے سے پہلے میں ایک سہیلی کی شادی میں شریک ہوئی۔ میری سہیلی نکاح سے پہلے نہیں جانتی تھی کہ اس کی شادی کس سے ہو رہی ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس کا شوہر اس کے باپ کی عمر کا تھا۔ اس کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی۔ چونکہ وہ لڑکی ہے اس لیے اس کا خاندان جو درست سمجھتا ہے وہ ہی ٹھیک ہے۔ درحقیقت یہ افغان رواج ہے اور اسی رواج کے مطابق میری دو بہنوں کی بھی شادی ہوئی تھی۔ ہماری برادری کے بڑوں نے بھی عین اسی رواج کے مطابق میری شادی کا بھی کہہ دیا تھا لیکن میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اور آگے پڑھنا چاہتی تھی‘۔

افغان خواتین سابقہ وزارت برائے اُمور خواتین کے باہر احتجاج کررہی ہیں—تصویر: اے ایف پی
افغان خواتین سابقہ وزارت برائے اُمور خواتین کے باہر احتجاج کررہی ہیں—تصویر: اے ایف پی

شازیہ بتاتی ہیں کہ ’15 اگست کے بعد سے جو افراتفری مچی تھی اس کے کچھ نہ کچھ اثرات آج تک چلے آرہے ہیں۔ سارے وہ لوگ جو ہم خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ وہ سب ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں‘۔

شازیہ پُرعزم نوجوان ہیں اور ساری گفتگو میں مسکراتی رہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’افغانستان میں صرف لڑکیوں کے لیے نہیں بلکہ لڑکوں کے لیے بھی حالات مشکل ہوتے جارہے ہیں۔ وہاں کاروبار ختم ہوچکے ہیں۔ ان کے لیے نوکری نہیں ہے۔ میری انگریزی کی استاد نے مجھے آج ہی بتایا کہ وہ گھر پر ہیں اور ان کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے۔ میری کچھ سہیلیاں اپنے والدین کے ساتھ ایران، آسڑیلیا، جرمنی اور یورپی ممالک منتقل ہوگئی ہیں۔

ان سارے مسائل کے باوجود شازیہ یہ سمجھتی ہیں کہ ’ماضی کے برعکس آج طالبان کے فیصلے کچھ بہتر ہیں۔ وہ سخت فیصلے نہیں کر رہے اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنا ایک نیا چہرہ دنیا کو دیکھائیں‘۔

لیکن ساتھ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’ہم کیا لباس پہنیں وہ ہمیں معلوم ہے۔ افغانستان کی اپنی اقدار ہیں۔ ہمارے گھروں میں بھی انہی باتوں پر عمل کیا جاتا تھا۔ طالبان سے پہلے ہم برقعہ نہیں بلکہ اسکارف اور کوٹ پہن لیتے تھے۔ لیکن اب جو لباس میں نے یہاں پہنا ہوا ہے وہاں میں یہ لباس نہیں پہن سکتی‘۔

شازیہ کہتی ہیں کہ طالبان سے پہلے وہ برقعہ نہیں بلکہ اسکارف اور کوٹ پہن لیتی تہیں لیکن اب ایسا ممکن نہیں—تصویر بشکریہ شازیہ
شازیہ کہتی ہیں کہ طالبان سے پہلے وہ برقعہ نہیں بلکہ اسکارف اور کوٹ پہن لیتی تہیں لیکن اب ایسا ممکن نہیں—تصویر بشکریہ شازیہ

شازیہ طالبان سے پہلے والے کابل کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ماضی میں کابل کم از کم معاشی اعتبار سے بہتر تھا مگر امن و امان کی صورتحال اس وقت بھی اچھی نہیں تھی۔ کیونکہ اسکولوں، سڑکوں اور مختلف ہجوم والی جگہوں پر بم دھماکے ہوتے تھے‘۔

وہ بچوں کے حوالے سے بھی بہت پریشان ہیں۔ شازیہ کہتی ہیں کہ ’افغانستان میں بچے دنیا بھر میں موجود عام بچوں جیسے آزاد نہیں ہیں۔ بچے تو کھیلتے، دوڑتے اور پڑھتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں کھلونے اور کتاب ہوتی ہے لیکن افغان بچے گولی کے شور میں ہی بڑے ہوتے ہیں۔ وہ سڑکوں پر مرے ہوئے لوگ اور بندوق دیکھتے ہیں۔اور چھوٹی عمر سے ہی ان سب تکلیف دہ مناظر کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اب ایسے ماحول میں بڑے ہونے والے بچوں کے پاس بھلا کیا خواب ہوں گے؟‘

شازیہ بتاتی ہیں کہ افغان بچے چھوٹی عمر سے ہی تکلیف دہ مناظر کے عادی ہوجاتے ہیں—تصویر: اے پی
شازیہ بتاتی ہیں کہ افغان بچے چھوٹی عمر سے ہی تکلیف دہ مناظر کے عادی ہوجاتے ہیں—تصویر: اے پی

معاشی بحران

نئی افغان حکومت نے اپنا پہلا سہ ماہی بجٹ منظور کیا ہے۔ امریکا کی موجودگی میں جو بھی حکومتیں بجٹ پیش کیا کرتی تھیں ان کے پاس 40 فیصد بیرونی امداد ہوتی تھی، اس کے ساتھ امریکی حکومت براہِ راست فنڈ بھی مہیا کرتی تھی۔ مگر اس بار افغان وزارتِ خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل نے بتایا کہ اس بجٹ میں کوئی بیرونی امداد شامل نہیں ہے۔

تقریباً 54 ارب افغانی روپے کا یہ بجٹ سرکاری اہلکاروں کی تنخواہوں اور ٹرانسپورٹ سسٹم کی بہتری پر خرچ ہوگا۔ معاشی صورتحال سمجھنے کے لیے یہ بھی جان لیں کہ طالبان سے پہلے ڈالر 80 روپے میں بک رہا تھا مگر اب وہ 100 سے اوپر پہنچ چکا ہے۔ طالبان حکومت عوام سے کہہ رہی ہے کہ اپنے اپنے کاموں پر لوٹ آئیں، بازار اور کاروبار کھولیں تاکہ زندگی رواں دواں ہوجائے اور معیشت بہتر ہوسکے۔

شازیہ بتاتی ہیں کہ ’طالبان کی آمد کے بعد ایک، دو ماہ ان کی دکان بند رہی لیکن پھر صورتحال بہتر ہونے پر دکان کھل گئی مگر کاروبار پہلے کے مقابلے میں کم رہا۔ پہلے بھی غربت تھی اور اب تو صورتحال مزید بگڑ چکی ہے‘۔

شازیہ بین الاقوامی اداروں اور بڑی طاقتوں سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ افغانستان کی مدد کریں۔ جیسے سب طالبان سے پہلے ہماری حکومت کو ایڈ دیتے تھے اب بھی ایسا ہی کریں تاکہ لوگوں کی صورتحال بہتر ہوجائے اور کاروبار چل پڑے۔

شازیہ کے مطابق طالبان کے آنے بعد ان کے والد کی دکان ایک ماہ تک بند رہی—تصویر بشکریہ شازیہ
شازیہ کے مطابق طالبان کے آنے بعد ان کے والد کی دکان ایک ماہ تک بند رہی—تصویر بشکریہ شازیہ

شازیہ حکومتِ پاکستان سے کیا چاہتی ہیں؟

شازیہ واپس افغانستان نہیں جانا چاہتیں، لیکن ان کا ویزا ختم ہونے والا ہے اس لیے وہ حکومتِ پاکستان سے گزارش کرتی ہیں کہ ان کے ویزا کی معیاد بڑھا دی جائے۔ ساتھ وہ یہ بھی درخواست کرتی ہیں کہ وہ چونکہ تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں اور سافٹ ویئر انجینئر بننا چاہتی ہیں، لیکن یہاں نہ ان کے پاس کوئی گھر ہے اور نہ تعلیم کے حصول کے لیے دیگر وسائل، اس لیے وہ حکومت سے مالی امداد بھی چاہتی ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس وقت نوجوان بچیاں ہوں یا تعلیم یافتہ طبقہ، افغانستان میں سب ہی اپنے خاندان کے لیے فکر مند ہیں۔ قندھار، ہلمند میں پڑھنے لکھنے کا زیادہ رواج نہیں تھا، مگر ہمارا کابل سب سے الگ اور خوبصورت افغان شہر تھا۔ میں نہیں جانتی کہ میں وہاں دوبارہ جاسکوں گی یا نہیں، لیکن میں پڑھنا ضرور چاہتی ہوں‘۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (12) بند ہیں

Beenish Siddiqua Jan 18, 2022 07:11pm
جی ضرور تعلیم حاصل کریں لیکن پاکستان میں کس خوشی میں ؟ افغانی اب ہماری جان چھوڑ دیں تو کتنا اچھا ہو
Arsalan khokhar Jan 18, 2022 07:41pm
Excellently written and interviewed story by Sheema Siddiqui. Covered all the concerning aspects and portrayed the core issue of refugees....
عبدالله خان مهمند ڈسٹرکٹ Jan 18, 2022 11:29pm
بچی کا پاکستان میں پناہ دینے سے پاکستان غریب نہیں ھوگا پاکستان نے ایک تاریخی دور میں پروپیگنڈا ڈرامے "پناہ' نام کے ذریعے افغانیوں کو ترغیب دی تھی کہ وہ پاکستان ھجرت کریں ، بچی کی تعلیم ضروری ھے شادی نہیں ، والدین انکو ایک معمر شحص کے ساتھ دوسری یا تیسری بیوی کے حثیت سے بیاہ کروا رھے ھیں باقی طالباں بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ لڑکیوں کو فی الحال تعلیم دلاسکے کیونکہ جیسا لکھا کہ بجٹ ھی نہیں اور پاکستان کو مزید چاھئے کہ جتنی جلدی ھوسکے ھزاروں سکالرشپ افغانیوں کے لئے اناونس کریں خصوصاً بچیوں کے لئے ، ایک پاکستانی
Irfan Jan 19, 2022 10:19am
Government should help deserving people to continue or complete their studies in Pakistan
Sheema Siddiqui Jan 19, 2022 10:23am
شازیہ کو تعلیم کا حق ملنا چاہیے ۔ کیونکہ یہ انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانی پاکستان آتے ہیں ۔ رہتے ہیں کاروبار کرتے ہیں اس ہی طرح تعلیم بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ وہ رہیں گے افغانی ہی ۔
Azam Naeem Khan Jan 19, 2022 10:25am
Afghans r our brothers but they r disturbing international border and making propaganda against Pakistan on foreign paid agenda. So they have become namakharam now
Azam Naeem Khan Jan 19, 2022 10:27am
Afghans r our brothers but they r doing propaganda against Pakistan on foreign paid agenda. They have become namakharam now
Awais Haider Jan 19, 2022 05:43pm
شازیہ کو تعلیم کا پورا پورا حق حاصل ہے - حکومت پاکستان اگر اسکالرشپ نہیں دے سکتی تو کم از کم ویزے کا میعاد زیادہ کرے - اسکالرشپ ہم ارینج کرلیں گے شازیہ کیلئے
Asif Jan 19, 2022 06:24pm
Go back to your "beautiful" Kabul.
Tahmad Jan 20, 2022 12:58am
Love you Shazia, I salute to all Afghan women, don't worry, Pakistan is your 2nd home and all Pakistanis will love and respect to all Aghans men and women coming to Pakistan. If I come to Peshawar, I will try to help you and your family as a good Pakostani.
Taj Ahmad Jan 20, 2022 10:35pm
Don't worry Shazia, Pakistan is your second home, you can stay here and continue your education as well as job, your Pakistani brothers and sisters are there to help you.
asadkurdi Jan 21, 2022 09:58am
اس نے پاکستان آ کر بہت اچھا کیا، ہماری بھی حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ افغانستان سے آنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور انہیں ہر سہولت میسر کی جائے

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024