کووڈ سے معمولی بیمار افراد بھی طویل المعیاد منفی اثرات کا سامنا کرسکتے ہیں، تحقیق
کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے درمیانی عمر یا معمر مریضوں کی جسمانی نقل و حرکت اور افعال پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
کینیڈا کی Longitudinal اسٹڈی آن ایجنگ میں 24 ہزار 114 معمر اور درمیانی عمر کے افراد کا جائزہ لیا گیا جن میں کووڈ کو دریافت کیا گیا تھا۔
بیشتر افراد میں کووڈ کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور انہیں ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا مگر ان پر بیماری کے بعد منفی اثرات کا تسلسل برقرار رہا۔
تحقیق میں بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے معمولی یا معتدل حد تک بیمار ہونے والے افراد کو بھی نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے حالانکہ ان کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت بھی نہیں پڑی تھی۔
ان افراد کے ابتدائی گروپ میں شامل لگ بھگ 42 فیصد کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ تھی اور 51 فیصد خواتین تھیں۔
ان افراد کی نقل و حرکت کو 3 جسمانی مشقوں سے جانچا گیا، جیسے ایک کرسی پر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہونے، گھریلو کاموں میں شمولیت اور روزمرہ کی جسمانی سرگرمیاں۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے متعدد افراد کو ایروبک سرگرمیوں میں نمایاں چیلنجز کا سامنا کرتے دیکھا، دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ دیگر سخت سرگرمیاں جیسے بھاری وزن اٹھانا کرنے کے قابل تھے، مگر عام سرگرمیاں ان کے لیے مشکل ہوگئیں، یعنی کچھ دیر تک چلنا، سیڑھیاں چڑھنا یا سائیکل چلانا وغیرہ۔
انہوں نے کہا کہ جسمانی نقل و حرکت پر یہ منفی اثرات محض عمر میں اضافے کا اثر نہیں تھے کیونکہ وہ دیگر کام کرنے کے قابل تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 سے نقل و حرکت کے مسائل مسلز، جوڑوں اور اعصاب پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، جبکہ لوگوں کو وزن منتقل کرنے، توازن اور اپنے بل پر چہل قدمی میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
محققین کے مطابق کووڈ کے اس طرح کے طویل المعیاد اثرات سے متاثر افراد کو زیادہ لمبے عرصے تک نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طبی امداد کے بغیر سنگین کیسز میں مریضوں کو تھکاوٹ، ماحول سے کٹ جانے اور مسلز کے حجم میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے، جبکہ کم شدت والے کیسز میں لوگ اپنے بل پر ریکور ہوسکتے ہیں مگر طبی امداد کے بغیر اس میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل دسمبر 2021 میں امریکا کی یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کسی متاثرہ فرد میں داخل ہونے کے بعد چند روز میں نظام تنفس سے دل، دماغ اور لگ بھگ تمام جسمانی اعضا کے نظام تک پھیل جاتا ہے، جہاں وہ کئی ماہ تک موجود رہ سکتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ وائرس نظام تنفس سے ہٹ کر بھی دیگر اعضا میں انسانی خلیات کے اندر اپنی نقول بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تحقیق میں انسانی جسم میں کئی ماہ تک وائرس کی موجودگی کو طویل المعیاد علامات کا ممکنہ سبب قرار دیا گیا جس سے متاثر افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ وائرس کے تسلسل کو میکنزمز اور کسی بھی وائرل ذخیرے پر جسمانی ردعمل کو سمجھنے سے لانگ کووڈ سے متاثر افراد کی نگہداشت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم کام ہے، کافی عرصے سے یہ سوال ہمارے ذہنوں کو گھما رہا تھا کہ آخر لانگ کووڈ جسمانی اعضا کے اتنے زیادہ نظاموں پر اثرانداز کیوں ہوتا ہے، اس تحقیق میں اس حوالے سے کچھ روشنی ڈالی گئی ہے اور ممکنہ وضاحت کی گئی کہ آخر کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کو بھی لانگ کووڈ کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔
ماضی میں بھی مختلف تحقیقی رپورٹس میں ایسے شواہد فراہم کیے جاچکے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس پھیپھڑوں اور نظام تنفس سے ہٹ کر بھی دیگر جسمانی حصوں میں خلیات کو متاثر کرسکتا ہے۔