معیشت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے دباؤ سے نکل سکتی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے کہا ہے کہ ملک کی معیشت میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے باہر نکلنے کی صلاحیت ہے اور دباؤ کی وجہ عالمی سطح پر مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق رضاباقر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کی جانب سے جیسے ہی زری پالیسی سخت کی گئی تو دباؤ میں کمی آنی چاہیے اور عالمی سطح پر طلب میں کمی کا امکان ہے۔
مزیدپڑھیں: قومی اسمبلی کی کمیٹی نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری دے دی
گورنر اسٹیٹ بینک نے رائٹرز کو انٹرویو میں کہا کہ ہمیں جس بات کو یقینی بنانی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مقابلے کی صلاحیت ہونی ہے اور مجھے یقین ہے ہم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ طلب میں تیزی سے ہونے والی بحالی ہے کیونکہ معیشتیں کووڈ کی کے بحران سے باہر آرہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مرکزی بینکوں نے سختی شروع کردی ہے اور یہ عالمی طلب میں بڑھوتری میں پیش رفت کررہے ہیں، جس کے بدلے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں تنزلی ہونے جارہی ہے۔
رضاباقر نے کہا کہ ہم (پاکستان) اس سے گزرے گا جب تک اشیا کی قیمتوں کا سپرسائیکل نہیں رکتا ہے، چند مہینوں کے دوران ہونے والا دو تہائی تجارتی خسارہ دنیا بھر میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری درآمدی ادائیگیوں کا ایک تہائی تیل کی ادائیگیوں پر ہے اور تیل کی قیمتوں میں کس قدر اضافہ ہوا ہے، برینٹ کی قیمت 2021 میں 50 فیصد بڑھی ہے اور 2022 میں جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تعمیراتی شعبے کیلئے سال2021 میں قرضوں کے اجرا میں 85 فیصد اضافہ
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ہمارا لچکدار ایکسچینج ریٹ سسٹم پاکستان میں ہونے والی ادارہ جاتی اصلاحات میں سے ایک قدم ہے، اس کی وجہ سے ہمیں توازن ادائیگیوں میں مدد ملے گی۔
اسٹیٹ بینک نے ستمبر سے اب تک 275 بیسز پوائنٹ بڑھائے اور شرح سود 9 اعشاریہ 75 فیصد پر ہے تاکہ پیسے کی بے قدری، افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ روکا جایا۔
مرکزی بینک نے اشارہ دیا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر شرح سود میں کمی روک دے گا جبکہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران تقریباً 10 فیصد گر گئی۔
پاکستان میں دسمبر میں کنزیومر پرائس انڈیکس ایک سال کے قبل کے مقابلے میں 12 اعشاریہ 28 فیصد بڑھا جو اسٹیٹ بینک کی رواں مالی سال کے لیے دیے گئے 9 فیصد سے 11 فیصد کے تخمینے سے زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پراعتماد ہیں کہ مہنگائی کی پریشانی کو جو اقدامات ہم نے کیے ہیں اس سے مناسب مداوا ہوگا۔