کووڈ سے متاثر بچوں میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف
کووڈ 19 کو شکست دینے والے بچوں میں ذیابیطس ٹائپ 1 یا 2 میں مبتلا ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
اس سے قبل کچھ طبی تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد بالغ مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
یورپی محققین نے کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے اب تک ذیابیطس ٹائپ 1 کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافے کو رپورٹ کیا۔
مگر سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی تحقیق میں پہلی بار کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 18 سال سے کم عمر بچوں میں ذیابیطس کے نئے کیسز کی شرح کا تخمینہ لگایا گیا۔
اس مقصد کے لیے امریکا میں انشورنس کلیمز کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تاکہ 18 سال سے کم عمر ایسے بچوں میں ذیابیطس کے نئے کیسز کا تخمینہ لگایا جاسکے جو کووڈ سے متاثر رہ چکے تھے۔
ڈیٹا بیس میں یکم مارچ 2020 سے ذیابیطس میں مبتلا ہونے والے بچوں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک جو کووڈ کو شکست دے چکا تھا اور دوسرا جو اس مرض سے محفوظ رہا تھا۔
محققین نے 2 ڈیٹابیس کی جانچ پڑتال میں ذیابیطس کے نئے کیسز کی شرح میں اضافے کو دریافت کیا۔
پہلے ڈیٹابیس کے مطابق اس عرصے میں ذیابیطس کے مرض کی شرح میں 2.6 گنا اضافہ ہوا جبکہ دوسرے ڈیٹابیس میں اضافے کی شرح 30 فیصد دریافت ہوئی۔
محققین نے بتایا کہ 30 فیصد اضافہ بھی خطرے میں بڑے اضافے کا عندیہ دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی یہ واضح نہیں بچوں میں ذیابیطس ٹائپ 2 دائمی مرض ہے یا وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا، البتہ ذیابیطس ٹائپ 1 ریورس ایبل نہیں کیونکہ ان بچوں کی مانیٹرنگ محض ساڑھے 4 ماہ تک ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے ایسے تمام بچوں میں ویکسینیشن کی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے جو ویکسینز کے اہل ہیں جبکہ احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک کا استعمال اور سماجی دوری وغیرہ کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ طبی ماہرین اور والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ذیابیطس کی علامات اور نشانیوں سے واقف ہوں، تاکہ بچوں میں مرض کی جلد تشخیص ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ پیاس زیادہ لگنا، بار بار پیشاب آنا، وزن میں بلاوجہ کمی اور تھکاوٹ ذیابیطس کی چند بڑی علامات ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جسمانی وزن میں اضافہ اور سست طرز زندگی یعنی زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا بھی ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہیں۔
تحقیق میں شامل بیشتر بچوں میں ذیابیطس کی تشخیص اس وقت ہوئی جب انہیں انسولین کی ناکافی مقدار کی وجہ سے پیچیدگیوں کا سامنا ہوا۔
تحقیق میں ذیابیطس کی دونوں اقسام کی شرح کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا مگر یہ ضرور کہا گیا کہ ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 دونوں کے کیسز ایسے بچوں میں بڑھ گئے جو کووڈ 19 کا شکار رہے تھے یا علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔