رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی تحقیقات کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم کے اہلِخانہ کی جانب سے چار وفاقی وزرا اور کچھ اینکر پرسنز کے خلاف کارروائی اور بیانِ حلفی کے مواد کی تحقیقات کی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نا ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کی بہو انعم احمد رانا اور ان کے بچوں محمد حمزہ رانا اور اریبہ احمد رانا کی مشترکہ طور پر دائر درخواست پر سماعت کی۔
رانا شمیم کے اہل خانہ نے ان کے بیانِ حلفی میں کیے گئے 'انکشافات' کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں 'بدنام' کرنے پر وفاقی وزرا اور کچھ اینکر پرسنز کے خلاف کارروائی کی استدعا کی تھی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے رانا شمیم کے بیٹے احمد حسن رانا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:رانا شمیم بیان حلفی: ’نئے انکشافات نے شریف خاندان کو پھر سیسیلین مافیا ثابت کردیا‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس عدالت کا کوئی بینچ پریشر میں بنا ہے، یہ بتائیں کونسا بینچ پریشر میں بنا اور ایسا کونسا فیصلہ ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک تھیم ہے جس کے تحت ساری چیزیں چل رہی ہیں، کیا کوئی ثبوت ہے کہ اپیلوں پر بینچ دباؤ میں بنا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن کی اپیلیں ہیں کیا انہوں نے اس عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا؟
عدالت نے احمد حسن رانا سے دریافت کیا کہ کیا رانا شمیم نے آپ کو یہ درخواست دائر کرنے کا کہا؟جس پر وکیل نے کہا کہ میری استدعا آئینی ہے میں پڑھ دیتا ہوں۔
مزید پڑھیں:رانا شمیم کے نواز شریف سے ’براہِ راست رابطے‘ ہیں، احمد حسن رانا
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ استدعا ساری یہ ہے کہ رانا شمیم کی ہتک عزت ہوئی۔
بعدازاں عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
درخواست کا پس منظر
خیال رہے کہ اپنے حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو ٹیلی فون کر کے کہا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست ضمانت کو 2018 کے عام انتخابات تک منظور نہ کریں۔
رانا شمیم کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے یہ کال گلگت کے دورے کے دوران کی، جہاں انہوں نے جی بی سپریم اپیلٹ کورٹ کے ریسٹ ہاؤس میں ان کی میزبانی کی تھی۔
مذکورہ حلف نامے پر مبنی ایک اسٹوری انگریزی روزنامے 'دی نیوز' میں شائع ہونے پر عدالت رانا شمیم، صحافیوں انصار عباسی، عامر غوری اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر چکی ہے اور ان پر 20 جنوری کو فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:توہینِ عدالت کیس: بیانِ حلفی کا متن درست ہے، شائع کرنے کیلئے نہیں دیا، وکیل رانا شمیم
اسی تناظر میں رانا شمیم کے اہلِ خانہ کی جانب سے 10 جنوری کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ رانا شمیم کے بیان حلفی کے مندرجات، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی لیک ہونے والی آڈیو اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ 'اس وقت' دباؤ میں تھی۔
درخواست میں کہا گیا کہ حال ہی میں اے آر وائے ٹی وی پر نشر ہونے والے ٹیلی ویژن پروگرامز میں رانا شمیم کے خلاف 'فضول الزامات' لگائے گئے جس سے ان کے خاندان کو تکلیف پہنچی۔
درخواست گزاروں نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بیان دیا کہ گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ آئینی عدالت نہیں ہے اور سابق چیف جج رانا شمیم کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔
مزید پڑھیں:گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے خلاف درخواست دائر
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ حلف نامے میں جو کچھ بھی کہا گیا وہ اس گفتگو پر مبنی ہے جو ریٹائرڈ جسٹس رانا محمد شمیم نے اس وقت سنی جب وہ گلگت بلتستان میں موجود تھے اور جب تک کہ یہ جھوٹ ثابت نہ ہو جائے ان سے کوئی بھی بددیانتی منسوب نہیں کی جا سکتی، خاص طور پر جب یہی بیان رانا شمیم نے میڈیا یا کسی صحافی کو جاری نہیں کیا۔