پروین رحمٰن قتل کیس: ملزمان نے اے ٹی سی کا فیصلہ سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا
سندھ ہائی کورٹ نے معروف سماجی کارکن اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سابق سربراہ پروین رحمٰن کے قتل کیس میں سزایافتہ 2 ملزمان کی اپیلوں پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو نوٹس جاری کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محمد رحیم سواتی اور ان کے بیٹے محمد عمران نے اپنے وکیل کے توسط سے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل دائر کی۔
پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو منگھوپیر روڈ پر ان کے دفتر کے قریب گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔
ملزمان کے وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں کیس میں پھنسایا گیا ہے اور ان سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا جبکہ ٹرائل کورٹ نے گواہان کے بیانات میں تضادات اور اس کے سامنے پیش کیے گئے مادی حقائق پر غور نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں:پروین رحمٰن قتل کیس کا 8 سال بعد فیصلہ، 4 ملزمان کو 2،2 مرتبہ عمر قید کی سزا
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کوئی آزاد/نجی گواہ نہ ہونے کی وجہ سے کیس مشکوک ہوگیا ہے اور الزام عائد کیا کہ ٹرائل کورٹ نے معاملے کو پالیسی معاملے کے طور پر دیکھا، ساتھ ہی استدعا کی کہ سزا کالعدم قرار دی جائے۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے دفتر کو آئندہ سماعت تک پیپر بک تیار کرنے کی ہدایت کی۔
یاد رہے کہ 17 دسمبر 2021 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے رحیم سواتی، امجد حسین خان، ایاز شامزئی اور احمد خان عرف پپو کشمیری کو پروین رحمٰن کے قتل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رکن کی معاونت اور سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
اس کے ساتھ ٹرائل کورٹ نے شواہد چھپانے پر عمران کو بھی 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
مزید پڑھیں: پروین رحمٰن کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان کا صحت جرم سے انکار
پروسیکیوشن نے کہا تھا کہ قید ملزمان میں سے کچھ نے دورانِ تفتیش جرم میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنماؤں نے طالبان عسکریت پسندوں کو پروین رحمٰن کے قتل کے لیے پیسے دیے تھے۔
ایاز شامزئی اور رحیم سواتی اے این پی کے وہ مقامی رہنما تھے جو او پی پی آفس کے قریب رہتے تھے اور انہوں نے وہ جگہ کراٹے سینٹر بنانے کے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن پروین رحمٰن نے ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔
پروسیکیوشن نے مزید کہا کہ رحیم کے گھر پر جنوری 2013 میں ایک ملاقات ہوئی جس میں تمام ملزمان موجود تھے جہاں انہوں نے سماجی کارکن کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لیے ٹی ٹی پی کے مقامی کمانڈروں موسیٰ اور محفوظ اللہ عرف بھالو کو ذمہ داری دی۔
پروسیکیوشن نے دعویٰ کیا کہ قاری بلال اور محفوظ اللہ مارے جاچکے ہیں جبکہ بلال عرف ٹینشن شواہد ناکافی ہونے کی بنا پر رہا ہوگیا تھا۔
ابتدا میں یہ کیس تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت پیر آباد تھانے میں درج کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر کے قتل میں لینڈ مافیا ملوث تھی، چارج شیٹ
بعدازاں سپریم کورٹ کی ہدایت پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کو بھی اس میں شامل کیا گیا اور عدالت نے اس وقت کے ڈسٹرک اینڈ سیشن جج (غربی)کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری کا بھی حکم دیا تھا۔
سال 2014 میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ قتل کی تفتیش کوئی قابل، آزاد اور ایماندار پولیس افسر کرے۔
رپورٹ میں تحقیقات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیا تھا کہ پولیس کے تفتیش کاروں نے تفتیش کے اہم پہلوؤں میں ہیراپھیری کرنے سے گریز نہیں کیا۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر صوبائی اور وفاقی حکام کی جانب سے کیس کی تحقیقات کے لیے متعدد جے آئی ٹیز تشکیل دی گئیں۔