شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نکتے نے محرم سے مجرم بنا دیا
اگر ہم 'دعا' اور 'دغا' کے نقطے سے ہٹ کر انسان کے 'حیوان' سے نطق اور نطق سے ’ناطق‘ تک کے سفر کو دیکھیں تو اسے فطرت کا عطا کردہ سب سے بڑا تحفہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا۔ یہ وہ سرچشمہ ہے جس سے انسان کی ذہنی اور مادی ترقی کا راستہ پھوٹ پڑا اور انسان ہزاروں صدیوں کی مشکل پگڈنڈیوں پر سفر کرتا، گرتا پڑتا آج یہاں تک پہنچا ہے کہ دوسرے سیاروں کو پرکھنے کے لیے فضاؤں میں راستے بناتا اُڑتا پھرتا ہے۔
آج ہم انسان کے اس قدیم زمانے کا ذکر کرنے والے ہیں جب وہ ایک سے دوسرے براعظم نقل مکانی کرتے اور اپنی جڑوں کو جمانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ جہاں ان کو خوراک اور دوسری آسائشیں میسر آ سکیں۔
آپ اگر جامشورو سے N-55 پر سفر کرتے وقت سیہون کے لیے نکل پڑیں تو اس سے تقریباً 50 کلومیٹر پہلے آپ کو راستے کے مشرق میں سن کی طرف جانے کے لیے آگاہی دینے والا سائن بورڈ نظر آئے گا۔ اس سے تھوڑا آگے جائیں تو راستے کے مغرب میں کچھ دکانیں اور پھر قریب ہی پیٹرول پمپ نظر آئے گا، وہاں سے شمال کی جانب تھوڑے ہی فاصلے پر ایک بورڈ لگا نظر آئے گا جس پر 'رنی کوٹ 33 کلومیٹر' لکھا ہوگا۔
آپ یہ سمجھیں کہ نیشنل ہائی وے 55 ایک لکیر کی طرح جامشورو سے آتا ہے اور سیہون کی طرف نکل جاتا ہے تو اس لکیر کے مشرق میں دریائے سندھ کے پرانے بہاؤ کے شاندار راستوں کے نشان مل جاتے ہیں جہاں سے بہتا پانی کسی زمانے میں ایک سحر انگیز منظر پیش کرتا تھا۔ مگر وقت نے اس بہاؤ سے اس کی ہستی مستی چھین لی ہے۔ ہاں اگر کبھی زیادہ بارشیں ہوجائیں تو اس میں وہ جادوگری پھر سے لوٹ آتی ہے مگر اب یہاں دریائے سندھ برائے نام ہی رہ گیا ہے۔
بس پانی کسی نیلی لکیر کی طرح بہتا ہے۔ اس تارکول کی پختہ سڑک کے مغرب میں کھیرتھر پہاڑی سلسلہ ہے۔ اگر آپ اس سلسلے کو گوگل پر دیکھیں تو یہ کسی وجود کی طرح لیٹا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے وجود پر برساتی پانی کی گزرگاہوں کے نشان برگد کے پیڑ کی جڑوں کی طرح دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر آپ اور تھوڑا غور سے دیکھیں گے تو ایک طاقتور نئے (بارشی پانی کا بہاؤ) کے نشان آپ کو صاف نظر آئیں گے جو اس پہاڑی سلسلے کو چیر کر نکلتی ہے جہاں رنی کوٹ، رون کوٹ، رونی کوٹ اور دیگر کئی ناموں سے پکارا جانے والا قلعہ موجود ہے۔
اس بہاؤ کی وجہ سے جو مٹی کئی صدیوں سے اس بہاؤ میں بہتی رہی ہے اس مٹی کی ذرخیز پرت کی وجہ سے یہاں بہاؤ کے کناروں پر فصلیں اور درخت وغیرہ کی پیداوار کے لیے مناسب ماحول موجود ہے۔ اس بہاؤ کے پانی کو روک کر اطراف میں بسے ہوئے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں رہنے والے لوگ فصلیں اگاتے ہیں۔
راستے کے دونوں اطراف آپ کو چھوٹے چھوٹے پہاڑی گاؤں دیکھنے کو ملیں گے اور ساتھ میں جنگلی جھاڑیاں، درخت اور بکریوں کے ریوڑ بھی نظر آجاتے ہیں۔ یہاں کا لینڈ اسکیپ کسی کھینچی ہوئی لکیر کی طرح بالکل سیدھا ہے۔ مگر یہ راستہ کسی ایسی پریشانی کی طرح بچھا ہوا ہے، جس سے اگر آپ چاہیں بھی تو پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ وہ پکا راستہ نہ جانے کس زمانے میں بنا ہوگا اور پھر اسے دوبارہ بنانے کا کسی نے سوچا بھی نہیں ہے۔
میں ایک مثال دے سکتا ہوں اس عذاب بھرے راستے کی۔ آپ کو اگر شدید پیاس لگی ہے اور آپ کے ہاتھ میں ٹھنڈے اور شیریں پانی کی بوتل ہے تو آپ چلتی گاڑی میں اس کا ڈھکن کھول کر نہیں پی سکتے۔ اگر پینے کی کوشش کریں گے تو ہچکولوں کی وجہ سے یا تو مسوڑہ زخمی ہوگا یا کوئی دانت اس طرح زخمی ہوگا کہ پھر جڑیں نہیں پکڑ سکے گا اس لیے اگر آپ کو پانی پینا ہے تو گاڑی روکنی پڑے گی۔ یہ مسلسل عذاب آپ کے ساتھ 30 کلومیٹر تک چلتا ہے اور پھر آپ قلعے کے راستے کی پہلی گزرگاہ ’سن گیٹ’ پر پہنچ جاتے ہیں۔
یہاں آپ کی آنکھیں حیرت انگیز منظر دیکھتی ہیں، 30 کلومیٹر کی کوفت ایک پل میں آپ کے ذہن سے ایسے جھڑ پڑتی ہے جس طرح بیری سے بیر جھڑ کر زمین پر گرتا ہے اور ڈھلان پر پھسلتے دُور نکل جاتا ہے اور نظر نہیں آتا۔
قلعے کی مضبوط اور قدیم شاندار دیواریں پہاڑیوں کی چوٹیوں پر سے دوڑتی میلوں تک چلی جاتی ہیں۔ حدنگاہ تک پھیلی دیواروں کے بیچ میں برج کسی مستعد سپاہی کی طرح کھڑے نظر آتے ہیں۔ سن گیٹ کی طرح یہاں قلعے میں داخل ہونے یا نکلنے کے لیے 4 دروازے یا گزرگاہیں موجود ہیں۔
1)۔ سن گیٹ (مشرقی دروازہ)
2)۔ آمری گیٹ (شمالی دروازہ)
3)۔ شاہ پیر گیٹ (جنوبی دروازہ)
4)۔ موہن گیٹ (مغربی دروازہ)
سن گیٹ سے داخل ہونے پر اس نئے کے شمالی کنارے پتھریلے راستے سے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ سن گیٹ کے پاس تو اس نئے میں ان دنوں پانی نہیں ہوتا البتہ آپ جیسے مغرب کی طرف آگے بڑھتے جاتے ہیں تو اس نئے میں صاف پانی کا ہلکا سا بہاؤ نظر آتا ہے۔ بہاؤ کے کنارے خوبصورت جنگلی گھاس سروٹ اُگی ہوئی ہے اور کناروں پر لئی (Tamarix) کے گھنے درختوں کے جھنڈ موجود ہیں، جن کا سبز رنگ اس قدر گہرا ہے کہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ ابھی کچھ پلوں میں ہرا رنگ ان سے نچڑنے لگے گا۔ صاف اور شفاف پانی کے بہاؤ میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی ہیں جو چھوٹے چھوٹے جھنڈوں میں تیرتی پھرتی ہیں بالکل ایسے جیسے شادی یا عید کے دنوں میں چھوٹے بچے یہاں سے وہاں خوشی میں دوڑتے پھرتے ہیں۔
یہ ایک خاموش اور پُرسکون وادی ہے۔ جہاں ہر سو فطرت کی اتھل پتھل دیکھی جاسکتی ہے۔ ساتھ میں انسانی ہاتھوں اور دماغ کی کاوشوں سے بنے ہوئے قلعے کی بنی دیواریں جن میں کسی سحر کی طرح بسی ہوئی پُراسراریت بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ ان دیواروں اور برجوں کے سحر کی جڑیں صدیوں تک پھیلی نظر آتی ہیں۔ میں یونانی جغرافیہ دان ہیکٹس سے ان کی اس بات سے اتفاق کروں یا نہیں کہ: ’دریائے سندھ کے قریب اوپیائی کی زمین پر 515 قبل مسیح کا ایک قلعہ نظر آتا ہے جو ایرانیوں کا لشکر گاہ اور نیا سرحدی صوبہ تھا‘۔
مگر مجھے الیگزینڈر برنس کی تحریر سے اختلاف کی شاید کوئی وجہ نظر نہ آئے کیونکہ جب وہ 1831ء میں اس قلعے کی مشرقی سمت میں سفر کر رہے تھے تو اس کے جاہ و جلال نے انہیں بھی متاثر کیا حتیٰ کہ اس نے قلعے خود یہاں آکر دیکھا بھی نہیں تھا۔
وہ لکھتے ہیں: ’سامنے نظر آنے والی پہاڑیوں کی ان قطاروں میں، مانجھند سے 16 میل مغرب میں دریائے سندھ کے قریب رونا (Runna) نامی چھوٹی پہاڑی پر یہ قلعہ موجود ہے۔ یہ قدیم زمانے میں تعمیر شدہ ایک قلع بند شہر ہے، جس کو بہت پہلے ویران حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ پھر سندھ کے امیروں نے اس کی مرمت کروائی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ہے تو رونا کے قلعے میں باہر سے پانی نہیں آتا بلکہ قلعے کے اندر موجود قدرتی چشموں سے پانی آتا ہے اور پانی کی مقدار بہت زیادہ ہے‘۔
الیگزینڈر برنس کی اس تحریر کے بعد ہمیں تاریخ کے حوالوں میں تالپور حکومت کے امیروں کے وہاں شکار کے غرض سے آنے جانے کے سوا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ الیگزینڈر کے یہاں آنے کے 135 برس بعد یعنی 1965ء میں سن میں سائیں جی ایم سید کے پاس کرنل خواجہ عبدالرشید ان کے مہمان بن کر آتے ہیں۔ سائیں جی ایم سید سندھ کے نامور تاریخ دانوں و محققین حسام الدین راشدی، ایم ایچ پنوھر، محمد ابراہیم جویو اور غلام ربانی آگرو کو بھی آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یوں پھر ایک ٹیم کی صورت میں رنی کوٹ کے اس قلعے کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
اس سیر و سیاحت کے دوران ہر کوئی قلعے سے متعلق اپنے اپنے طور پر اندازے لگاتا ہے کہ قلعہ تالپور صاحبان نے بنایا یا اس سے پہلے بنا ہوا تھا؟ اگر پہلے بنا ہوا تو کس زمانے میں اور کس نے بنایا؟ اگر بنایا تو اتنا طویل یعنی 18 میل پر محیط قلعہ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ اس کے کیا اسباب تھے؟ اس کے سوا بھی یقیناً بہت سارے سوالات تھے جن کا جواب اس وقت کسی کے پاس نہیں تھا۔ مگر لیفٹیننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید صاحب نے کچھ وقت کے بعد اقبال ریویو میں اس قلعے پر پہلی بار بڑی تفصیل سے ایک تحقیقی مضمون ’رنی کوٹ: دنیا کا سب سے بڑا قلعہ‘ تحریر کیا۔ اس تحریر کا لب لباب کچھ اس طرح سے ہے کہ:
’کھیرتھر پہاڑیوں کے سلسلے پر دنیا کا ایک وسیع اور جنگی قلعہ بنا ہوا ہے۔ اس کو رنی کوٹ، رنیکا کوٹ، میھن کوٹ اور دوسرے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ قلعہ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر قائم کیا گیا ہے اور اس کی دیواروں کی وسعت 18 میلوں کے دائرے پر محیط ہے۔ ایک قدیم زمانے میں جب یہ قلعہ بنا تھا تب یہاں ایک ذرخیز گھاٹی تھی جس کی آبی ضروریات کو اس وادی کے بیچ میں بہنے والی ندی پورا کرتی تھی۔ اس قلعے کو شاید یونانیوں نے تعمیر کیا ہو، مگر چونکہ سندھ کے حاکم وقت بوقت اس کی مرمت کراتے رہے ہیں جس کی وجہ سے قدیم تعمیرات کے نشان بظاہر نظر نہیں آتے۔
'اس قلعے کے 4 دروازے ہیں، یہ وہ ایسے عام دروازے نہیں ہیں جو دوسرے قلعوں میں ہوتے ہیں اس لیے ہم ان کو داخلی گزرگاہ (Entrance) کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس جنگی قلعے کے اندر دیگر تعمیرات بھی موجود ہیں۔ نچلی وادی میں جو تعمیرات ہیں ان کو ’میری‘ اور اوپر کی طرف جو تعمیرات ہیں ان کو ’شیر گڑھ‘ کے ناموں سے بلایا جاتا ہے۔ یہ دونوں رہائشی قلعے ہیں اور ایسی جگہ پر تعمیر کیے گئے ہیں جہاں سے ساری وادی نظروں کے سامنے آجاتی ہے، لہٰذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ فوجی اسباب کے لیے بنائے گئے ہوں گے اور دفاعی اعتبار سے نہایت کارآمد رہے ہوں گے۔
'اس کے علاوہ قلعے کی دیواروں کے اندر بھی تعمیرات موجود ہیں۔ اگر آپ سن دروازے سے دیکھیں گے تو پُل کے دونوں اطراف 2، 2 گول برج یا منارے کھڑے ہیں اور ان کے پیچھے دیگر برج بھی ہیں۔ دراصل یہ مستطیل شکل کے منارے یا برج تھے جن کو بعد میں گولائی میں تبدیل کیا گیا ہے کیونکہ بعد میں ہونے والا تعمیراتی کام چونے پتھر (Lime stone) سے نہیں کیا گیا جبکہ بنیادی تعمیرات میں چونے پتھر کا استعمال ہوا ہے۔ ان گول برجوں کو سنگ ریگ (Sand stone) سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ گول برج دیواروں کے ساتھ باقاعدہ ایک ترتیب سے تعمیر نہیں کیے گئے ہیں اور یہ تعداد میں بھی کم ہیں۔ فقط بڑے دروازوں یا چھوٹے کوٹوں کے چاروں کونوں پر نظر آتے ہیں جبکہ جو اصلی منارے یا برج ہیں وہ سارے مستطیل اور دیواروں کے ساتھ ایک ترتیب سے بنے ہوئے ہیں۔‘
کرنل صاحب میری کوٹ (پاکستان سروے میں اس کو آمری کوٹ کے نام سے درج کیا گیا ہے) سے متعلق رقم طراز ہیں: ’میری کوٹ رقبے کے لحاظ سے شیر گڑھ سے تھوڑا بڑا ہے اور 3 رہائشی حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ رہائشی حجرے بعد میں تعمیر کیے گئے تھے۔ ان حجروں میں تراشے ہوئے پتھر استعمال ہوئے ہیں جس پر پھول پتیوں کے جو نفیس نقش و نگار کندہ ہیں ان کا تعلق قدیم تعمیرات سے ہے۔ اگر آپ دیکھیں گے تو اس قسم کے تراشیدہ پتھر آپ کو بہت جگہوں پر پڑے ملیں گے۔ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اس قلعے کی بنیاد تالپور دور میں رکھی گئی تھی۔
’جس طرح، میر حسن علی خان تالپور (متوفی 30 جنوری 1907ء) اپنی مثنوی ’فتحنامہ‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ: ’رنی کوٹ، میر کرم علی خان (اور میر مراد خان کی مشترکہ حکومت (1227ء سے 1244ء)) کے زمانے میں یہ قلعہ بنایا گیا اور یہ ہمارے آباؤ اجداد کا شاندار کارنامہ ہے۔ مزدوروں نے یہاں کام کیا، اوبڑ کھابڑ زمین کی سطح کو ہموار کیا اور ایک دیوار کھڑی کی گئی جو کوسوں پھیلی ہوئی ہے جو پتھر سے بنائی گئی اور اس کے اندر شیر گڑھ اور میری جیسے مضبوط قلعے بنائے گئے۔ یہاں سے ایک نہر بہتی ہے اور پانی کی بہتات تھی مگر جب بارشیں نہیں پڑتی تھیں تو قلعے سے باہر پانی نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ وہاں کے پانی کے لیے کاریگروں نے نہر میں مغرب اور مشرق میں 2 بڑے دروازے لگانے کی تجویز دی۔ ان دروازوں کے لیے پتھر کے مضبوط ستون بنائے گئے اور ان میں لوہے کے دروازے لگائے گئے مگر جب بارش کا موسم آیا تو رنی نئے کے طاقتور بہاؤ کے سامنے وہ لوہا موم کی طرح مُڑ جاتا تھا، اس لیے اس قلعے کو استعمال میں نہیں لایا گیا‘۔
سندھ گزیٹیئر کو 1876ء میں ترتیب دینے والے ہیوز اور 1839ء میں بمبئی آرمی کے کیپٹن ڈلہاؤزی کے مطابق: ’یہ قلعہ جو اب ویران پڑا ہے اس کو تالپور برادران نے تعمیر کروایا تھا اور اس قلعے پر 12 لاکھ روپے خرچ آیا تھا‘۔
خواجہ عبدالرشید، میر صاحب کی تحریر، برٹش زمانے کے دو اہم لوگوں کے حوالے دینے کے بعد تحریر کرتے ہیں: ’۔۔۔اس بات پر یقین کرنا میرے لیے مشکل ہے کہ یہ قلعہ 1812ء میں بنا ہوگا البتہ اس میں شک نہیں کہ اسی برس اس کی مرمت اور تعمیرات میں کچھ تبدیلی ضرور کی گئی ہوگی۔ مگر قلعے کی قدامت ثابت کرنے کے لیے میرے پاس دلائل ہیں:
- قلعے کی دیوار میں لگی کھڑکیاں اور ان میں موجود سوراخ (جن میں سے حملہ آوروں پر پتھر اور تیر برسانا مقصود تھا) دراصل توپ اور بارود کے زمانے سے پہلے کے نشان ہیں جو تیر کمان کی جنگوں میں ہی کارآمد ہوسکتے تھے۔
- قلعے کی بیرونی وسیع دیواروں میں مستطیل برج بنے ہوئے ہیں جن کا رواج 10ویں صدی سے پہلے تھا۔
- آمری دروازے کو یہ نام اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ جس وقت قلعہ تعمیر کیا جا رہا تھا اس وقت یہاں آمری کی بستی آباد تھی۔
- میری کوٹ میں استعمال ہونے والے پتھر پر نقاش ونگاری ستھین کاریگری کا نمونہ ہے۔
- سن دروازے کے قریب جو گنبدی طرز کا ڈھانچہ موجود ہے وہ ستھین و ساسانی زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔
- دیوارِ چین اور رنی کوٹ کی دیواروں میں جو مشابہت ہے وہ قدیم زمانے کی تعمیرات کی گواہی دیتی ہے۔
- شیر گڑھ کے کوٹ کے نیچے قدیم بستی کے آثار بھی ملتے ہیں۔’
ان دلیلوں کے بعد خواجہ عبدالرشید آخر میں انتہائی اہم بات لکھ کر اپنا مقالہ ختم کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’۔۔۔تاریخ کے صفحات میں ہمیں ستھین کا نام ملتا ہے جو بنیادی طور پر حملہ آور نہیں تھے بلکہ یہاں سکونت اختیار کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان کا ایک وسیع جتھا شمال سے جنوب کی طرف دریائے سندھ کے کنارے کنارے چلتے سندھ میں پہنچا اور آباد ہوا، تاریخ ان کو انڈو ستھین کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وسطی ایشیا سے آئے تھے اور آرین کی نسل سے تھے۔ بھنبھور میں بھی ستھی پارتھین آبادیوں کے آثار ملے ہیں، بھنبھور کی تعمیرات کا تعلق اسی زمانے سے ہے۔ آج بھی سندھ کی مردم شماری میں بڑا حصہ ستھین آبادی کا ہے‘۔
یہ مقالہ 1967ء میں مہران نامی رسالے میں بھی شائع ہوا تھا۔ کرنل خورشید کا یہی مقالہ آنے والے دنوں میں رنی کوٹ پر تحقیق کی بنیاد بنا۔ اب تک رنی کوٹ پر 2 سیمیناروں کا انعقاد 1981ء اور 2006ء میں ہوچکا ہے۔ 1990ء میں سندھ ایکسپلوریشن اینڈ ایڈونچر سوسائٹی نے رنی کوٹ کا تفصیلی سروے کیا اور ایک رپورٹ جاری کی جبکہ 2009ء میں اس قلعے کے ایک حصے کی ریڈیوکاربن رپورٹ اور متعدد محققین کے مقالے بھی میرے سامنے ہیں۔ یہ سب رپورٹس اور تحقیق مل کر ایک ایسے اجلاس کا تصور پیش کرتی ہیں جیسا کبھی کبھار ہمیں اپنے ملکی ایوانوں میں دیکھنے اور سُننے کو مل جاتا ہے۔
ہر کوئی اپنے مطالعے اور تجربے کی بنیاد پر بات کرتا ہے۔ سب یہی کہتے ہیں کہ جو ان کا نکتہ نظر ہے وہی درست ہے۔ کچھ تحقیق کرنے والے اس بات سے آگے بالکل بھی بات کرنے کو تیار نہیں کہ یہ قلعہ کسی اور نے نہیں تالپور صاحبان نے بنایا ہے۔ کچھ سے زیادہ محققین کی رائے ہے کہ قلعہ قدیم زمانے کا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ یونانیوں نے بنایا تو کچھ کا کہنا ہے کہ یہ انڈو ستھین نے تعمیر کیا۔ چند کی رائے ہے کہ یہاں کبھی سندھو تہذیب کا قدیم مقدس مقام تھا جہاں بعدازاں پرشیا سے ملانے والے بیوپاری راستے کے تحفظ کے لیے بنایا گیا۔ پھر قلعے کے نام کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور رنی کوٹ کی جگہ نیرون کوٹ لے لیتا ہے۔ چلیے ہم بھی اتنے مواد سے کچھ کشید کرتے ہیں اور اس ہنگامہ خیز اجلاس میں شریک ہونے کے لیے پَر تولتے ہیں۔
ہم اگر یہاں سے، یعنی 2022ء سے دیکھیں تو صدیوں پہلے جئدرتھ اور دروپدی کا روبرو بحث و مباحثہ کب کا ہوچکا تھا۔ کوروؤں اور پانڈوؤں میں لڑی گئی مہابھارت کی جنگ کب کی ہوچکی۔ لیکن ہم اگر ایک ہزار قبل مسیح یعنی مہابھارت کی جنگ کے مقام سے فارس کو دیکھیں جو اس وقت ایران کے جنوب میں سمندر کے کنارے پر واقع تھا، وہاں ایرانی اپنی ابتدائی بستیاں قائم کر رہے تھے۔ یہ کئی برسوں تک آشوری شہنشاہیت کے ماتحت رہے اور پھر وہ بھی وقت آیا کہ، اشوری شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا اور ہخامنشی شہنشاہیت کی بنیاد ڈالی گئی۔
ایک زمانے تک یہ بتایا جاتا رہا کہ ہخامنشی عہد کی تاسیس کوروش اعظم نے کی۔ مگر پھر کوروش کے زمانے کے کچھ ستون برآمد ہوئے، جن پر خط میخی میں کچھ تحریریں حاصل ہوئیں جن کی وجہ سے بتائے گئے منظرنامے میں کچھ تبدیلی آگئی۔
سر پرسی سائیکس (Sir Percy Sykes) کی تحریر کے مطابق: ’ہخامنشی عہد کی تاسیس فارس میں ہخامنش نے کی تھی، جو پاسارگاد قبیلے کا ایک امیر زادہ تھا۔ اس کا دارالحکومت پاسارگاد تھا جو قبیلے کے نام سے منسوب تھا، اور اس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ ہخامنش کے کارناموں کا احوال تو نہیں مل سکا مگر لوگ اُسے بڑے احترام سے یاد کرتے تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہخامنش نے بکھرے ہوئے وحشی قبائل کو منظم کرکے انہیں ایک مہذب قوم بنایا جس نے بعدازاں تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ اس کے بعد ہخامنش کے خاندان کے جن افراد نے فارس پر حکومت کی، ان میں چیش پیش، کمبوجیہ اول، کوروش اول اور چیش پیش دوم کے نام نمایاں ہیں‘۔
اب ہم 521 قبل مسیح میں آکر پہنچے ہیں اور دارا اول تخت و تاج پر بیٹھ چکا ہے۔ داریوش وہ نام ہے، جس نے اپنی سیاسی فراست، انتظامی قابلیت اور دلیری کی وجہ سے ایران کو عظیم ایران بناکر جاودانی شہرت حاصل کی۔
اب ہم اس ہخامنشی سلطنت بننے کے ان ماہ و سال میں ہیں جب اس کی وسعت 55 لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیلنے والی تھی۔ یہ سلطنت کئی استراپیوں (استراپی سے ایک وسیع صوبہ کا تصور لینا چاہیے) اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل تھی جن کے حکمرانوں کو شاہ کہا جاتا تھا۔ چونکہ بادشاہ ان کا حاکم اعلیٰ تھا اس لیے اس نے اپنے لیے شہنشاہ کا لقب اختیار کیا۔ یہ لقب دارا اول کے کتبے میں واضح طور پر ملتا ہے۔ دارا اول کے کتبے میں 28 استراپیوں کا ذکر ملتا ہے۔ ہر استراپی میں فوجیں بھی رہتی تھیں، جن کو بادشاہ بوقت ضرورت ہر صوبے سے طلب کر سکتا تھا۔
دارا نے دارالحکومت پرساگریاپسر کے جنوب و مغرب میں اندازاً 25 میل کے فاصلے پر ایک نیا شہر آباد کیا اور وہاں ایک محل تعمیر کروایا جو ظخر کے نام سے مشہور تھا اور آگے چل کر اصظخر ہوگیا، یونانی زبان میں اسے پرسی پولس (Persepolis) پکارا جاتا ہے اور پارسی ’تختِ جمشید‘ کہتے ہیں۔
اب ہم اس شہر سے مشرق جنوب کی طرف نکلتے ہیں جہاں، اس وسیع حکومت کی 3 اہم استراپیاں سندھو گھاٹی سے بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی تھیں۔ انہی سے ہی شاہی خزانے میں سب سے زیادہ رقم جمع ہوتی تھی۔ یہ سفر کچھ کٹھن اس لیے ہے کہ، ہمیں ہمارے اچھے دوست ہیروڈوٹس نے کچھ پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ اگر ہم اس کا اس زمانے کا بنایا ہوا نقشہ دیکھیں تو وہ اپنی جگہ پر تو ٹھیک ہی ہے مگر ’ہ‘ اور ’س‘ کے آپس میں تبادلے نے بہت سارے پڑھنے والوں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے لہٰذا اس سفر کی کتھا پڑھتے وقت ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جہاں بھی ’ہند‘ استعمال ہو وہ ہمیں ’سندھ‘ سمجھنا چاہیے۔ ہیروڈوٹس کی تحریر میں ان وسیع ریاستوں کے نام اس طرح تحریر ہیں:Sattagydia, Gandara, Hidus (Indos..Indus)
اس گُتھی کو سلجھانے کے لیے کہ کون سا علاقہ کہاں ہوسکتا تھا یا ہے؟ ہم، محترم ایچ ٹی لیمبرک (Hugh Trevor Lambrick) سے مدد لینے کی کوشش کریں گے۔ وہ یقیناً ایک اچھے اور نامور محقق ہیں۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ: 'دارا اول کی حکمرانی کا دور سندھ کا ایران کی شہنشاہیت کے دائرے میں آنے کا زمانہ ہے، اس بادشاہ کی فتوحات میں یہ پہلی فتح تھی جو اسے 519 یا 518 قبل مسیح میں حاصل ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کے حاکموں کو گندھارا میں قدم رکھنے کا پہلے ہی موقع مل چکا تھا جس کا ذکر بیستون کے کتبے پر موجود ہے، جو دارا نے 520 قبل مسیح میں نو (9) بغاوتوں کو ایک ہی برس میں ختم کردینے والے واقعے کو یاد رکھنے کے لیے ایستادہ کیا گیا تھا۔
تحقیق کرنے والوں کے مطابق بیستون کتبے کی فہرست میں شامل تھتاگُش نامی صوبہ پنجاب کے شمال مغرب میں تھا، مگر کچھ محقق اس کو غِلزئی یا ہزارہ کا علاقہ تصور کرتے ہیں۔ خیر جو بھی ہو مگر ایرانیوں کی طرف سے سندھو گھاٹی کے ڈیلٹائی علاقے کی طرف پیش قدمی کے لیے گندھارا کو مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا اور یہ نیا علاقہ 518 قبل مسیح میں ہخامنشی سلطنت کے دائرے میں آیا'۔
لیمبرک کے مطابق: 'جب ہخامنشی سلطنت کے آخری برسوں میں بھی ہندوستان ان سے وفادار رہا۔ دارا کودومنیس نے جب سکندرِ اعظم سے مقابلہ کرنے کے لیے آخری مورچہ سنبھالا تب اس نے سندھو گھاٹی سے اپنی مدد کے لیے فوجوں کو بلایا اور اس کا حکم بجا لاتے ہوئے یہاں سے لوگ اور ہاتھی عین وقت پر جنگ کے میدان میں پہنچ گئے تھے اور اربیلا کی تباہ کن جنگ میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ بات بھی خارج الامکان نہیں کہ اسی زمانے میں ہندوستانی علاقے کی شمالی سرحد کم ہوکر دریائے سندھ کے کنارے تک آ پہنچی تھی، کیونکہ جنگ کے موقعے پر شہنشاہ کو جو ہاتھی بھیجے گئے تھے، وہ دریائے سندھ کی دائیں طرف بسے ہندوستانیوں نے بھیجے تھے۔ یہاں یہ بات بھی ممکنات کے دائرے میں آتی ہے کہ، سارا انتظام مقامی شہزادوں اور سرداروں کے ہاتھ میں آگیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سکندرِ اعظم یہاں پہنچا تھا تو اس کا کسی بھی ایرانی حاکم یا کارندے سے نہ آمنا سامنا ہوا تھا اور نہ کوئی ملاقات۔ مگر یہ ضرور تھا کہ ٹیکسلا سے بحیرہ عرب تک، سکندر کو ہر جگہ مقامی لوگوں سے سامنا کرنا پڑا تھا۔ بلاشبہ سکندر کے لیے یہ انتہائی کٹھن اور تھکادینے والا سفر تھا۔ شاید ہمارے لیے بھی، کہ تاریخ کی پگڈنڈیوں پر سفر ہمیشہ تھکا دیتا ہے۔ سکندر کے بعد ہمیں اشکانی، ساسانی، انڈو ستھین کے زمانے اور محمد بن قاسم کے حملے تک ایک لمبا سفر طے کرنا ہے'۔
تو جناب، کچھ دنوں بعد اسی برقی صفحے کے ذریعے رنی کوٹ یا نیرون کوٹ کی اس پُرسکون وادی میں پھر ملتے ہیں۔
حوالہ جات:
- ’دی ہسٹریز آف ہیروڈوٹس‘۔ ترجمہ:یاسر جواد۔نگارشات پبلشرز، لاہور
- ’سندھ: بفور دَ مسلم کانکیوسٹ‘۔ ایچ۔ٹی۔لئمبرک۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
- ’تاریخ یونان‘ ۔ پروفیسر بیوری۔ترجمہ: سید ہاشمی فرید آبادی۔ کتاب میلہ
- ’ہسٹری آف پرشیا‘۔ سر پرسی اسکائیز۔جلد اول۔لندن
- ’سندھ جی پیرائتی کتھا‘۔ایم ایچ پنوھر۔سندھیکا پبلشر، کراچی
- ’نگری نگری پھرا مُسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ ایران‘ جلد اول۔ پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی۔ مجلس ترقی ادب، لاہور
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (13) بند ہیں