رانا شمیم و دیگر کے خلاف فرد جرم کی کارروائی ملتوی، فریقین کو 'سوچنے کی مہلت‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم، جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن اور سینئر صحافیوں انصار عباسی اور عامر غوری کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی ملتوی کر دی۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، گلگت بلتستان کے چیف جج رانا شمیم اور ان کے وکیل لطیف آفریدی کے علاوہ صحافی انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے البتہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن غیر حاضر رہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ میر شکیل الرحمٰن آج کیوں پیش نہیں ہوئے، آج تو فرد جرم عائد کی جانی تھی؟ جس پر انصار عباسی نے بتایا کہ میر شکیل الرحمٰن اور ان کی پوری فیملی کو کورونا ہوگیا ہے اس لیے قرنطینہ میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:توہین عدالت کیس: رانا شمیم و دیگر فریقین پر 7 جنوری کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ
عدالت نے انصار عباسی سے استفسار کیا آپ نے درخواست دائر کی تھی جس میں کہا تھا کہ عدالت نے کلیرکل غلطی کی، بتائیں کونسی غلطی ہوئی، جس پر انصار عباسی نے عدالتی حکم نامے میں کی گئی غلطی کی نشاندھی کی۔
عدالت نے کہا کہ اس ملک میں کسی کو سبجوڈس رولز کا پتا نہیں یا پھر جاننا نہیں چاہتے، اس عدالت سے زیادہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی یقین نہیں رکھتا۔
رائے دی جارہی کہ ججز دباؤ میں فیصلے کرتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس عدالت کے بینچ سے متعلق بیانیہ تھا جس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور میں شامل تھا۔
عدالت نے کہا کہ اس بیانیہ سے یہ رائے دی جارہی ہے کہ ججز دباؤ میں فیصلے کرتے ہیں، اس قسم کی خبروں کی وجہ سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔
انصار عباسی نے مؤقف اپنایا کہ میرا مقصد اس عدالت کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کرنا نہیں تھا، حقیقت رانا شمیم بتائیں گے، میں نے اپنی خبر میں کسی جج کا نام نہیں لکھا۔
مزید پڑھیں:رانا شمیم نے سربمہر بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرا دیا، وکیل
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پتا تھا کہ کیس زیر سماعت ہے اور پھر بھی آپ نے بیان حلفی کو چھاپا، ذاتی حیثیت میں آپ کی قدر کرتے ہیں، آپ نے کہا کہ بیان حلفی شاید غلط ہوا ہو لیکن ہم پھر بھی چھاپیں گے، نا سمجھی میں بھی چیزیں ہوجاتی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ آپ کا اتنا بڑا اخبار ہے آپ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ خبر کس کیس پر اثرانداز ہو گی، یا تو آپ کہہ دیں کہ آپ کو یہ بھی معلوم نہیں تھا۔
انصار عباسی نے فرد جرم عائد نہ کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ چارج فریم ہوگا تو ہی عدالت آپ کو سنے گی۔
چاہتے ہیں آپ کو احساس ہو کہ آپ کی خبر کا کیا اثر ہوا، چیف جسٹس
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس بینچ سے زیادہ کوئی ازادی اظہارِ رائے کا حامی نہیں، ہم آپ کی دیانتداری پر سوال نہیں کر رہے ہم چاہتے ہیں آپ کو احساس ہو کہ آپ کی خبر کا کیا اثر ہوا۔
دوران سماعت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نمائندے اور عدالتی معاون ناصر زیدی نے مؤقف اپنایا کہ اس عدالت کے تمام ججز کا احترام ہم دل سے کرتے ہیں، اس اندھیر نگری میں آپ روشنی ہیں اور ہمیں ہمیشہ آپ سے انصاف ملتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کے ہر مشکل وقت میں آپ نے ہی ہمیں انصاف دیا، آپ نے ہی کہا کہ غلطی انجانے میں ہو سکتی ہے، فرد جرم عائد نہ کریں کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔
یہ بھی پڑھیں:توہین عدالت کیس: رانا شمیم، دیگر کےخلاف فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی مؤخر
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کچھ بین الاقوامی ادارے تو اس عدالت پر اظہار رائے پر پابندی کے الزامات لگا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کے لیے سائلین کے حقوق سب سے زیادہ اہم ہیں، عدالت نے لکھا ہے کہ اگر کوئی معروف آدمی بیان حلفی دے چاہے وہ جھوٹا ہو تو آپ چھاپ دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جو بیانیہ بنایا ہوا ہے یہ سائل کے لیے بہت فرق پیدا کرتا ہے، بیانیہ یہ ہے کہ ایک جج نے ثاقب نثار سے بات کی لیکن وہ بینچ میں شامل ہی نہیں تھے۔
بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل تھے جس کے بعد وہ اپیلیں میرے بینچ نے بھی سنیں، اس بیانیے کے مطابق ہم تینوں پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن کے نام خبر میں لکھے ہیں دو دن بعد ان کے کیسز لگے تھے، عدالت نے پوری سماعت میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ نے کیا غلطی کی ہے، مجھ پر جتنا مرضی کوئی تنقید کرے مجھے فرق نہیں پڑتا۔
عدالت نے کہا کہ آپ کا کیس چل رہا ہے اپنے پچھلے اخبار دیکھ لیں کہ آپ کیا چھاپ رہے ہیں؟
انصار عباسی نے مؤقف اپنایا کہ میں نے اپنے کیس میں نہ جج اور نہ ہی عدالت کا نام لیا، ان کے بیان حلفی میں جو کہا گیا تھا وہ ماضی سے جڑا تھا۔
انصار عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں اگر ایک بیان حلفی جھوٹا ہو پھر بھی چھاپ دیں گے، جس پر انصار عباسی نے کہا کہ اگر ہمیں پتا ہو کہ جھوٹا ہے تو ہم یہ لکھیں گے کہ جھوٹا ہے۔
مزید پڑھیں:ثاقب نثار نے نواز شریف،مریم نواز کو عام انتخابات کے دوران جیل میں رکھنے سے متعلق رپورٹ مسترد کردی
اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی آپ کے دو بیانات میں تضاد ہے، جب آپ کو نہیں پتا تھا کہ وہ سچ ہے یا نہیں تو پھر آپ نہ چھاپتے۔
انصار عباسی نے کہا کہ افتخار چوہدری والے معاملے میں جتنے بیان حلفی آئے تھے وہ سارے چھپے تھے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ معاملہ کیا تھا یہ بھی بتائیں۔
انصار عباسی نے کہا کہ میں نے بیان حلفی کی خبر میں ہائی کورٹ یا جج کا نام نہیں لکھا، میں نے احتیاط برتی لیکن عدالت نے اسے سمجھ لیا کہ تمام ججز کو مشکوک کیا گیا۔
انصار عباسی نے کہا کہ ظفر عباس صاحب(ڈان کے ایڈیٹر) نے لکھا کہ مجھے بیان حلفی ملتا تو میں بھی وہی کرتا جو انصار نے کیا۔
صحافیوں کےخلاف توہین عدالت کا کیس نہیں بنتا، عدالتی معاون
اس پر عدالت نے کہا کہ اچھا ہوا ظفر صاحب نے نہیں کیا ورنہ ان کے خلاف بھی توہین عدالت کیس ہوتا، آپ کسی وکیل سے پوچھ لیتے کہ اس بیان حلفی کی کیا اہمیت ہے۔
اس موقع پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ رانا شمیم کی حد تک یہ مجرمانہ توہین عدالت کا کیس بنتا ہے لیکن صحافیوں کے خلاف نہیں، ریکلیس دستاویزات چھاپنے پر توہین عدالت نہیں بنتی۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافی کا کبھی ایسا خیال نہیں ہوتا کہ توہین عدالت کا مرتکب ہو، انصار عباسی کو چاہیے تھا کہ تھوڑا انتظار کرتے اور مزید معلومات حاصل کرتے۔
انہوں نے کہا کہ البتہ صحافی کی جانب سے خبر شائع کرنے میں لاپروائی ہوئی اور لاپروائی کبھی بھی توہین عدالت میں نہیں آتی، کیس میں صحافیوں پر فرد جرم عائد نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انصار عباسی سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائیں، فردوس عاشق اعوان کیس میں اس عدالت کا بہت ہی زبردست فیصلہ موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رانا شمیم بیان حلفی: ’نئے انکشافات نے شریف خاندان کو پھر سیسیلین مافیا ثابت کردیا‘
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہاں مسئلہ ان کے مؤقف کا ہے اور کوئی پچھتاوا نہیں، انصار عباسی اور عامر غوری کا مؤقف مختلف ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کے عدالت پر اعتماد کو ختم کرنے کے لیے سیاسی بیانیہ بنایا جاتا ہے، اس عدالت سے ایسا کونسا فیصلہ جاری ہوا جس پر شک کیا جائے؟ جس سے لگے کہ اس عدالت کے کسی جج پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے؟ یہ ایک بیانیے کی شروعات ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ اس عدالت کا عام آدمی کے لیے بنیادی حقوق کے لیے دیا گیا فیصلہ میڈیا میں چلتا نہیں، کسی بڑے آدمی کی بات ہو تو وہ خبر بہت زیادہ چلتی ہے۔
صحافی نے خبر شائع کرتے وقت کسی حد تک مناسب احتیاط برتی، عدالتی معاون
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک عوام کا عدالت پر اعتماد نہ ہو وہ عدالت نہیں آتے، اس عدالت کی ذمہ داری ہے کہ سائلین کی حقوق کا تحفظ کرے۔
عدالتی معاون ریما عمر نے بینچ کے سامنے کہا کہ آزادی اظہار رائے کے لیے عدالت کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔
ریما عمر کا مزید کہنا تھا کہ صحافی کا کام خبر شائع کرتے وقت مناسب احتیاط برتنا ہے، انصار عباسی نے اپنی خبر میں ثاقب نثار کا مؤقف بھی شامل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بیان حلفی سوشل میڈیا پر بھی چلتا رہا لیکن خبر میں اس ہائی کورٹ یا جج کا نام نہیں لکھا گیا، صحافی نے خبر شائع کرتے وقت کسی حد تک مناسب احتیاط برتی۔
دوران سماعت عدالت میں معاون ریما عمر نے مؤقف اپنایا کہ اس عدالت کے جج شوکت عزیز صدیقی نے بہت سے الزامات لگائے جو میڈیا نے رپورٹ کیے۔
مزید پڑھیں: رانا شمیم اصل حلف نامہ پاکستان ہائی کمیشن لندن کے حوالے کریں، اٹارنی جنرل کا خط
سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا حوالہ دینے پر عدالت نے ریما عمر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا پھر یہ بیانیہ درست ہے کہ جو سزا معطل کی تھی وہ بینچ کسی کے کہنے پر بنے تھے؟ کیا آپ شک کر رہی ہیں کہ اس عدالت کے بینچز کسی کے کہنے پر بنتے ہیں؟
ریما عمر نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بالکل نہیں، میں جو کہنا چاہ رہی ہوں وہ سن لیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو شک نہیں تو پھر آپ کو یہ حوالہ بالکل نہیں دینا چاہیے تھا، آپ عدالتی معاون ہیں مہربانی کرکے اپنی نشست پر تشریف رکھیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لطیف آفریدی نے 15 منٹ مانگے تھے، جس پر آج ہم چارج کے لیے تیار ہوکر آئے تھے وہ 15 منٹ میں بھول گیا۔
عبداللطیف آفریدی نے کہا کہ انصار عباسی کو بہت پہلے سے جانتا ہوں، وہ عوام تک سچ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس موضوع پر کم علمی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔
وکیل نے مزید کہا کہ بیان حلفی انصار عباسی نے کہیں سے لے کر پبلش کرایا میرے مؤکل رانا شمیم نے بیان حلفی کسی کو نہیں دیا، ہمیں لوگوں کو صحیح اور سچ معلومات فراہم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت عبداللطیف آفریدی بطور عدالتی معاون دلائل دے رہے ہیں، یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافی کو چھوڑ دیں اور میرے کلائنٹ کے خلاف کارروائی کریں، عدالت کے اس ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
انصار عباسی اور دیگر کو کیس میں آگے لے کر جائیں، اٹارنی جنرل
لطیف آفریدی نے کیس کو ختم کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو ختم کریں تاکہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا جائے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پہلے دن سے مؤقف ہے کہ میڈیا کا کردار ثانوی ہے، میں سیاسی نہیں بلکہ مکمل طور پر قانونی بات کر رہا ہوں، ایک بیانیہ کافی عرصے سے بنایا جا رہا ہے، یہ کہہ سکتا ہوں بیانیہ بنانے والا اس عدالت میں موجود نہیں۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ کافی عرصے سے مخصوص طریقے سے ایک بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے، یہ کیس اور فردوس عاشق اعوان کیس مجرمانہ توہین کے کیس ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست مسترد
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انصار عباسی یا کوئی اور صحافی نہیں بلکہ ان کے ادارے ان معاملات میں ملوث ہیں، یہ بیان حلفی نہیں بلکہ ایک بیانیہ ہے، یہ اداروں کے لیے ایک موقع ہے کہ سیاست میں جو کرنا ہے کریں مگر کسی بیانیے کو تقویت نہ دیں۔
اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کی اور مؤقف اپنایا کہ انصار عباسی اور دیگر کو کیس میں آگے لے کر جائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے غلطی کا اعتراف کرنے سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے، آئندہ سماعت تک ان کو سوچنے کا وقت دیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے میر شکیل الرحمٰن کو ویڈیو لنک پر لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میر شکیل الرحمٰن فرد جرم کے لیے عدالت آئیں گے، کسی کا فیئر ٹرائل کا حق سلب نہیں کیا جائے گا۔
بعدازاں عدالت نے تمام ملزمان کو سوچنے کی مہلت فراہم کرتے ہوئے سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی۔
معاملے کا پس منظر
خیال رہے کہ 15 نومبر2021 کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔
مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزار نے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔
یہ بھی پڑھیں: سابق جج پر الزامات: انصار عباسی سمیت 4 افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری
رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔
دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔
تاہم ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔
ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔
اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
30 نومبر کو رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے اپنا ہی بیانِ حلفی نہیں دیکھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الزامات عائد کیے تھے، جس پر عدالت نے رانا شمیم کو 7 دسمبر تک اصل بیان حلفی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم 7 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں رانا شمیم کے وکیل نے کہا تھا کہ بیانِ حلفی کا متن درست ہے لیکن اسے شائع کرنے کے لیے نہیں دیا گیا تھا۔
اس سماعت کے 10 دسمبر کو جاری ہونے والے حکم نامے میں ہائی کورٹ نے فریقین کی جانب سے جمع کروائے گئے جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ نے رانا شمیم کا نام پروونشل نیشنل آئیڈینٹی فکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) مین شامل کردیا تھا جس کے تحت 30 روز کی سفری پابندی عائد ہوتی ہے۔
بعد ازاں 13 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل نے استدعا کی تھی کہ توہین عدالت کے نوٹسز ملنے والے اپنے بیان حلفی جمع کرا دیں، اس دوران رانا شمیم کا اصل بیان حلفی بھی آ جائے گا، اس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کی جائے۔
اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس نے رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر اصل بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
بعدازاں 20 دسمبر کی سماعت میں رانا شمیم کی پیروی کرنے والے وکیل لطیف آفریدی نے بتایا تھا کہ ان کے مؤکل کی جانب سے سربمہر بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرایا جاچکا ہے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت چاہتی ہے کہ اپنا بیانِ حلفی رانا شمیم خوف کھولیں۔
اس کیس کی 28 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں رانا شمیم نے عدالت کے سامنے اپنا سر بمہر بیانِ حلفی کھول دیا تھا اور عدالت نے فریقین پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 7 جنوری کی تاریخ مقرر کی تھی۔
اس سماعت میں اٹارنی جنرل نے رانا شمیم اور دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ رانا شمیم بیان حلفی لکھنے والے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا تھا کہ حلف نامہ جن سے متعلق ہے ان کی جانب سے کوئی تردید نہیں کی گئی، رانا شمیم مان لیں وہ استعمال ہوئے اور معافی مانگیں اور اگر رانا شمیم ایسا کریں تو میں بھی کہوں گا کارروائی نہ کریں۔