• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’موہن جو دڑو‘ جیسے شہر بناتے تو یورپی لوگ یہاں آتے، یاسر حسین

شائع January 7, 2022
اداکار ساتھیوں کے ہمراہ تاریخی مقام پر گئے—فوٹو: انسٹاگرام
اداکار ساتھیوں کے ہمراہ تاریخی مقام پر گئے—فوٹو: انسٹاگرام

اداکار، میزبان و ہدایت کار یاسر حسین نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں تاریخی تہذیبی شہر ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ جیسے شہر بنائے جاتے تو یورپ کے لوگ بھی یہاں سیاحت کے لیے آتے۔

اداکار و میزبان نے انسٹاگرام پر ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کے سیر سپاٹے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم نے بیس روپے کے نوٹ پر تاریخی شہر کی تصویر تو بنادی لیکن سیکھا کچھ نہیں‘۔

اداکار نے ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ پر بیس روپے کے نوٹ کے ساتھ کھچوائی گئی اپنی تصویر بھی شیئر کی۔

پاکستانی کرنسی کے بیس روپے کے نوٹ کے پیچھے تاریخی تہذیبی شہر ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کی تصویر ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قدیم تہذیب موئن جو دڑو دیکھنے کیلئیے سیاحوں کی آمد

بیس روپے کے علاوہ بھی پاکستانی کرنسی کے نوٹوں پر ملک کے دیگر تاریخی اور تہذیبی مقامات کی تصاویر چسپاں ہیں۔

یاسر حسین نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ میں 2500 قبل مسیح بھی ہر گھر میں ’ڈسٹ بن ہوتا تھا‘ کیوں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔

بیس روپے کے نوٹ کے پیچھے تاریخی مقام کی تصویر ہوتی ہے—فوٹو: انسٹاگرام
بیس روپے کے نوٹ کے پیچھے تاریخی مقام کی تصویر ہوتی ہے—فوٹو: انسٹاگرام

اداکار نے تاریخی تہذیبی شہر کی طرز تعمیر اور وہاں پر ہزاروں سال قبل صفائی کے انتطامات ہونے کی تعریف کرتے ہوئے شکوہ بھی کیا کہ اب سندھ کا کچرا دیکھ کر انہیں دکھ ہوا۔

اداکار نے ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کی طرز تعمیر کی تصاویر بھی شیئر کیں، جس پر مداحوں نےان کی تعریفیں اور بعض لوگوں نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ یاسر حسین کےپاس بیس روپے کا نوٹ بھی ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: موہن جودڑو : ماضی میں رقص کا مرکز

بعض مداحوں نے ان سے دریافت کیا کہ مذکورہ مقام کس جگہ ہے؟ کیوں کہ انہوں نے اس متعلق کوئی معلومات نہیں لکھی تھی۔

تاریخی تہذیبی شہر ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں واقع ہے جو ماضی میں خود ایک تہذیب کی اہمیت رکھتا تھا۔

’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ لاڑکانہ شہر سے 20 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے اور مذکورہ مقام اقوام متحدہ (یو این) کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کے ذیلی ادارے ’یونیسکو‘ کی عالمی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کے حوالے سے محقیقن میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ کتنا قدیم ہے، تاہم زیادہ مورخین کے مطابق یہ 5 سے 7 ہزار سال پرانا تہذیبی شہر ہے۔

مورخین کہتے ہیں کہ ’انڈس سولائیزیشن‘ نامی تہذیب یہیں سے شروع ہوئی تھی جو بعد میں وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوتی حالیہ سندھ میں تبدیل ہوگئی۔

موہن یا موئن جو دڑو جیسے شہر بناتے تو یورپی لوگ یہاں گھومنے آتے، اداکار—فوٹو: انسٹاگرام
موہن یا موئن جو دڑو جیسے شہر بناتے تو یورپی لوگ یہاں گھومنے آتے، اداکار—فوٹو: انسٹاگرام

’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کو 1992 میں متحدہ ہندوستان کے دوران کھدائی کے وقت دریافت کیا گیا اور قیام پاکستان کے بعد مذکورہ مقام پر مزید کھدائی کے بعد شہر سامنے آیا۔

’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ پر 1973 میں پہلی بار سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں پر عالمی ثقافتی کانفرنس منعقد کرکے اسے دنیا میں روشناس کروایا، جس کے بعد 1980 میں یونیسکو نے اسے ’عالمی ورثے کی فہرست‘ میں شامل کیا۔

آج سندھ کی گندگی دیکھ کر دکھ ہوا، اداکار—فوٹو: انسٹاگرام
آج سندھ کی گندگی دیکھ کر دکھ ہوا، اداکار—فوٹو: انسٹاگرام

تبصرے (1) بند ہیں

قاسم Jan 08, 2022 02:17am
اس جگہ کو، 1992 نہیں، *1920* میں متحدہ ہندوستان کے وقت کھدائی کر کے دریافت کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024