مریم نواز آڈیو لیک: 'نجی گفتگو خفیہ طور پر ریکارڈ کرکے لیک کرنا اصل جرم ہے'
مسلم لیگ (ن) نے اپنے رہنماؤں کی ٹیلی فون کالز کی ریکارڈنگ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا مبینہ طور پر ایک اور آڈیو کلپ منگل کو آن لائن لیک ہوا تھا جس میں انہیں سابق سینیٹر پرویز رشید کے ساتھ بعض صحافیوں کے ان کی پارٹی کے بارے میں مبینہ تعصب پر بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
اس مبینہ آڈیو لیک سے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے میڈیا اداروں کے حوالے سے طرزِ عمل پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز،پرویز رشید کی ایک اور مبینہ آڈیو ٹیپ منظرعام پر آگئی، فرخ حبیب کی (ن) لیگ پر تنقید
لیک ہونے والا مذکورہ کلپ اکتوبر 2016 کا معلوم ہورہا ہے جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف آذربائیجان کے تین روزہ دورے سے واپس آئے تھے۔ یہ وہ وقت بھی تھا جب پاناما پیپرز جاری ہوئے تھے اور نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات دوستانہ نہیں تھے۔
مذکورہ ویڈیو لیک پر ردِ عمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ رازداری کے آئینی حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹیلی فون کالز اور نجی گفتگو کو خفیہ طور پر ٹیپ کرنا اور پھر اس میں شامل افراد کی رضامندی کے بغیر انہیں لیک کرنا اصل جرم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے اور پرائیویسی میں دخل اندازی کے مرتکب پائے جانے والے مجرموں کو قانون کے مطابق مثالی سزا دی جانی چاہیے۔
آڈیو لیک کا معاملہ سینیٹ میں بھی زیر بحث آیا جہاں چیئرمین صادق سنجرانی نے اس معاملے پر پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بحث کی اجازت نہ دینے پر بعد میں رولنگ دینے کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں بھی عروج پر تھیں کہ سیاستدانوں کی گفتگو کو کون ریکارڈ کر کے خاص وقت پر لیک کررہا ہے۔
مزید پڑھیں: ‘میری میڈیا مینجمنٹ دیکھیے’: مریم نواز کی ایک اور مبینہ آڈیو لیک
سیکیورٹی اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری نے ڈان کو بتایا کہ اس ڈیجیٹل دور میں ایسے آڈیو اور ویڈیو کلپس کو ریکارڈ کرنے اور لیک کرنے کے لیے کسی فرد یا ادارے پر الزام لگانے والی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ 80 اور 90 کی دہائی ہوتی تو یہ سمجھنا آسان ہوتا کہ ایسی گفتگو کون ریکارڈ کر رہا ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں جہاں ریکارڈنگ کے آلات آسانی سے دستیاب ہیں، کسی مخصوص شخص یا ایجنسی کو پورے اعتماد کے ساتھ مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
حسن عسکری کا خیال تھا کہ یہ آڈیو لیک مسلم لیگ (ن) کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا کیونکہ اس کے مخالفین اسے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی آڈیو اور ویڈیو کلپس کے سیاسی محرکات ہوتے ہیں جنہیں سیاسی تقاضوں کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل جب مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں پہلے لیک ہونے والی ایک آڈیو کلپ کے بارے میں سر عام اعتراف کیا تھا جس میں وہ بعض میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات جاری نہ کرنے کی ہدایات دے رہی تھیں، حکمراں جماعت پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا اعتراف اعلیٰ سطح پر پارٹی کی میڈیا مینجمنٹ کا واضح ثبوت ہے، ساتھ ہی انہیں عدالت لے کر جانے کا عندیہ دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:چینلوں کو اشتہار نہ دینے کی آڈیو: آواز میری ہے، مریم نواز
حالیہ کلپ چند ماہ میں مریم نواز کی مبینہ طور پر لیک ہونے والی تیسری آڈیو ہے، ایسے ہی ایک لیک میں انہیں دو نیوز چینلز کے ذریعے عمران خان کی حکومت پر تنقید کرنے کے لیے اپنی 'میڈیا مینجمنٹ' کی مہارت کی تعریف کرتے ہوئے سنا گیا تھا کہ 'میری میڈیا مینجمنٹ دیکھو، جیو نیوز اور دنیا نیوز نے انہیں برباد کر دیا'۔
واضح رہے کہ مریم نواز اپنے والد نواز شریف کی آخری حکومت کے دوران وزیراعظم آفس سے اسٹریٹجک میڈیا کمیونیکیشن سیل کی سربراہی کررہی تھیں۔
اس ضمن میں گزشتہ روز سینیٹ اجلاس میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ مریم نواز اور پرویز رشید کی آڈیو کلپ نے میڈیا کے سامنے مسلم لیگ(ن) کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کلپ میں ایسا لگتا ہے جیسے ایک استاد ایک طالب علم کو میڈیا مینجمنٹ کے بارے میں بتا رہا ہے اور یہاں تک کہ میڈیا والوں کے لیے 'بھونکنے والے کتے' جیسے الفاظ استعمال کیے گئے'، میڈیا کی آزادی کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ لفافہ پر مبنی تھا۔
مزید پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز کے ٹرائل سے متعلق آڈیو کلپ جعلی ہے، سابق چیف جسٹس
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اپنے مخالفین کے خلاف میڈیا مہم چلانے کے لیے مشہور ہے اور اس نے مرحومہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جو کچھ کیا وہ سب کو معلوم ہے۔
اس پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے چیئرمین سے درخواست کی کہ وہ فیصلہ دیں کہ کیا سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والے آڈیو اور ویڈیو کلپس پر بحث کی اجازت دی جا سکتی ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر بحث کی اجازت ہے تو ہمارے پاس اس طرح کی بے شمار کلپس ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی مبینہ طور پر اسی طرح کی آڈیو کلپ پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت عدالت سے ریلیف مانگ رہی ہے۔
جس پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ آڈیو کلپ کے معاملے پر ایوان میں بحث کی اجازت دینے یا دینے کے حوالے سے وہ بعد میں فیصلہ دیں گے۔