• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

اسلام آباد ہائیکورٹ: سپریم کورٹ کے عملے سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

شائع December 31, 2021
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے پی آئی سی کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے پی آئی سی کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزارت قانون و انصاف کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے ملازمین کی تعداد سے متعلق تفصیلات کے لیے پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستوں کی سماعت کی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے پی آئی سی کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

ابتدائی طور پر سپریم کورٹ نے اپنے رجسٹرار کے ذریعے درخواست دائر کی تھی، لیکن جب جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ درخواست کیسے دائر کر سکتی ہے، تو وزارت قانون نے اسی طرز کی دوسری درخواست دائر کی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: 16 ہزار ملازمین کی برطرفی، حکم امتناع پربحالی کی درخواست مسترد

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ سے متعلق فیصلے پر وزارت قانون کس طرح ناراض ہے؟

اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی کہ وزارت قانون نے ماضی میں بھی اسی طرح کے معاملات میں درخواستیں دائر کی تھیں جس میں اس نے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرریوں پر مطلع کیا تھا اور اسی وجہ سے وزارت نے پی آئی سی کے حکم کو چیلنج کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو یاد دہانی کروائی کہ پی آئی سی کے خلاف حکم صرف عدالت کے اطمینان کے بعد ہی جاری کیا جاسکتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ یا وزارت قانون، کمیشن کے فیصلے سے ناراض ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی رضامندی سے درخواست دائر کی تھی۔

جسٹس من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سے مراد چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججز ہیں اور اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا درخواست دائر کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ججوں نے کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے اس بارے میں نہیں پوچھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: گریڈ 8 سے 17 کے ملازمین کی مشروط بحالی کی تجویز

پی آئی سی نے 12 جولائی 2021 کو مختار احمد کی طرف سے دائر درخواست پر معلومات حاصل کرنے کی اجازت دی تھی جس میں گریڈ ایک سے گریڈ 22 تک کے عدالت عظمیٰ کے عملے کی منظور شدہ تعداد، خالی اسامیوں، یومیہ اجرت، یکم جنوری 2017 کے بعد تشکیل دی کی گئی پوسٹیں اور ملک کی سب سے بڑی عدالت میں کام کرنے والے معذور اور خواجہ سرا افراد کے حوالے سے معلومات طلب کی گئی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پی آئی سی کے حکم کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی جسے 17 نومبر 2021 کو خارج کر دیا گیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ مختار احمد نے سپریم کورٹ کے ججوں سے متعلق کوئی خفیہ معلومات نہیں مانگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غیر قانونی تقرریوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا، ملک کے شہریوں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ اعلیٰ عدلیہ ان سے کچھ چھپا رہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر وہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار ہوتے تو وہ شہریوں کو عدالت عظمیٰ کے ملازمین کی تفصیلات بتا دیتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو تجویز دی کہ وہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے تفصیلات حاصل کریں اور درخواست گزار کو معلومات فراہم کریں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024