’عراق، افغان جنگوں میں شہریوں کی ہلاکتیں امریکا کی تسلیم کردہ تعداد سے بہت زیادہ ہیں‘
واشنگٹن: کئی برسوں کی قانونی کارروائیوں اور مہینوں کی تحقیقات کے بعد اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ اس نتیجے پر پہنچا کہ عراق اور افغانستان میں سویلین ہلاکتوں کی تعداد امریکا کی تسلیم کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امریکی جنگوں کی تحقیقات کی کوشش کا خلاصہ کرتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ ’وعدہ یہ تھا کہ جنگ دکھائی دینے والے ڈرونز اور بموں سے لڑی جاتی ہے لیکن نیویارک ٹائمز کی حاصل کردہ دستاویزات ناقص انٹیلی جنس، غلط اہداف لگانا، برسوں تک شہریوں کی اموات اور ناکافی احتساب ظاہر کرتی ہیں‘۔
اخبار نے مارچ 2017 میں شروع کیے گئے امریکی محکمہ دفاع اور سینٹرل کمانڈ کے خلاف دائر دعوے اور معلومات کی آزادی کی درخواست کے ذریعے پینٹاگون کے دستاویزات تک رسائی حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹ میں افغان جنگ کی تحقیقات کیلئےکمیشن قائم کرنے کا بل منظور
اس کے علاوہ نیویارک ٹائمز کے رپورٹرز نے ہلاکتوں کے 100 سے زائد مقامات کا بھی دورہ کیا اور بچ جانے والے شہریوں کے علاوہ سابق اور حاضر سروس امریکی حکام کے انٹرویو کیے۔
مذکورہ تحقیق 2 حصوں پر مبنی رپورٹ کی صورت میں رواں ہفتے شائع ہوئی تھی جس میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ امریکا کی فضائی جنگ ’انتہائی ناقص‘ تھی اور شہریوں کی اموات کی تعداد بھی سیکڑوں کے حساب سے ’انتہائی کم شمار‘ کی گئی۔
دستاویز پینٹاگون کے اس دعوے کو غلط ثابت کرتے ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی گھر کا ایک حصہ دشمن جنگجوؤں کے ساتھ تباہ کردیا جائے جبکہ بقیہ ڈھانچہ قائم رہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پانچ سال کے عرصے میں امریکی افواج نے افغانستان، عراق اور شام میں 50 ہزار سے زیادہ فضائی حملے کیے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں طویل ترین امریکی جنگ کھربوں ڈالرز اور ہزاروں زندگیاں نگل گئی
یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ فضائی حملے شروع کرنے سے پہلے فوج کو شہریوں کی ہلاکتوں کا تخمینہ لگانے اور اسے کم سے کم کرنے کے لیے وسیع پروٹوکول کو نیویگیٹ کرنا چاہیے، رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ اکثر دستیاب انٹیلی جنس ’گمراہ کر سکتی ہے، کم پڑ سکتی ہے، یا بعض اوقات تباہ کن غلطیوں کا باعث بن سکتی ہے‘۔
اخبار نے نشاندہی کی کہ بعض اوقات ہوا سے لی گئی ویڈیوز میں لوگوں کو عمارتوں میں پودوں کے نیچے یا ترپالوں یا ایلومینیم کے احاطہ میں نہیں دکھایا گیا۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا کہ’دستیاب ڈیٹا کی غلط تشریح کی جا سکتی ہے، جیسا کہ جب کسی تازہ بم دھماکے کی جگہ پر لوگ بھاگتے ہیں تو انہیں ریسکیو کرنے والوں کے بجائے عسکریت پسند سمجھا جاتا ہے‘۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بعض اوقات موٹرسائیکل پر سوار افراد کسی خاص طرح سے آگے بڑھتے ہوئے کسی حملے کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ وہ صرف موٹرسائیکل پر سوار افراد ہوتے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: نائن الیون! دہشت گردی کے نقطہ آغاز سے سقوط کابل تک
اس ضمن میں اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کے لیے نیویارک ٹائمز نے 3 مخصوص رپورٹس کا حوالہ دیا۔
ان میں سے ایک 19 جولائی 2016 کا واقعہ تھا جب امریکی اسپیشل فورسز نے شمالی شام کے علاقے میں داعش کے دہشت گردوں کے 3 ٹھکانے سمجھ کر بمباری کی اور ابتدائی رپورٹ میں کہا کہ 85 جنگجو مارے گئے جبکہ مرنے والے 120 کسان اور گاؤں کے دیگر افراد تھے۔
ایک اور مثال نومبر 2015 میں عراق کے علاقے رمادی میں ایک شخص کو داعش کے ٹھکانے میں کوئی بھاری چیز گھسیٹتے ہوئے دیکھ کر کیا گیا حملہ تھا جبکہ جائزے میں معلوم ہوا کہ وہ چیز دراصل ایک بچہ تھا جو فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔