سالنامہ: 2021ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلموں کا جائزہ
دنیا ابھی تک کورونا کی لپیٹ میں ہے، اس وبا کی آمد کو 2 برس ہونے کو آئے ہیں لیکن یہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ پاکستان میں فلم کا شعبہ جو پہلے ہی آخری دموں پر تھا، اس وبا سے متاثر ہوکر حالتِ نزع میں مبتلا ہوچکا ہے۔
2021ء میں 2 مرتبہ سنیما کھولے گئے، پہلی مرتبہ جولائی میں اور اس کے بعد پھر دوبارہ اکتوبر کے مہینے میں ان کو کھولا گیا۔ لیکن سندھ میں احتیاطی تدابیر کے پیش نظر پہلی مرتبہ تو سنیما نہیں کھل سکے تھے، مگر ہاں اکتوبر میں معاملات بہتر ہونے کے بعد سخت حفاظتی اقدامات کے تحت یہاں بھی کھل گئے۔ دوسری طرف بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سنیماؤں کی حالتِ زار تو ایک علیحدہ تحریر کی متقاضی ہے۔ اس لیے یہاں متذکرہ سینماؤں سے مراد پنجاب اور سندھ کے سنیما ہیں۔
رواں برس ریلیز ہونے والی اردو، پشتو، پنجابی فلمیں
اس بار پورے سال میں نصف بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ وقت سنیما بند رہے۔ اب جب سنیما کھل گئے ہیں تو بھی پاکستانی فلم سازوں کی اکثریت نے اپنی تیار فلموں کو ریلیز نہیں کیا۔ رواں برس سنیما کے پردے پر جو فلمیں ریلیز ہوئی یا ہو رہی ہیں ان کی تعداد 10 ہے۔ وہ پاکستانی فلمیں اب تک جو ریلیز ہوچکی ہیں، ان میں 3 پشتو فلمیں شامل ہیں، جن میں ہدایت کار ارشد خان کی 'بدمعاشی داخیال کوا'، ہدایت کار شاہد عثمان کی 'نوے زخمونہ' اور ہدایت کار نادر خان کی 'راج دا بدمعاشے' ہیں۔
پنجابی فلموں میں 'لگدی پنجاب دی' اور 'آئی لو یو لاہور' شامل ہیں، جن کے ہدایت کار بالترتیب ظہیر یاسین اور اشفاق ملک ہیں۔
ان کے علاوہ نمائش شدہ اردو فلموں میں ہدایت کار شاہ رخ انجم قریشی کی فلم 'میڈم پرابلم‘، ہدایت کار نبیل قریشی کی فلم 'کھیل کھیل میں' اور ہدایت کار جلال کی فلم 'کہے دل جدھر' شامل ہیں۔ ان کے علاوہ 2021ء میں ریلیز ہونے والی 2 فلمیں: 'شنوگئی' اور 'اودھم پٹخ' ابوعلیحہ کی ہدایت کاری میں بنی ہیں۔
اس سال ریلیز ہونے والی پہلی اردو فلم 'میڈم پرابلم' تھی، جس کی نمائش 21 جولائی 2021ء کو ہوئی۔ اس فلم کے ساتھ ساتھ 3 پشتو اور 2 پنجابی فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ رواں برس جس فلم کو سب سے زیادہ موضوعِ بحث بنایا گیا وہ 'کھیل کھیل میں' تھی اور جس فلم کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا، وہ 'جاوید اقبال' ہے۔
پہلے جاوید اقبال اسی سال ریلیز ہورہی تھی، لیکن اب اس فلم کی ریلیز کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں اس کی ریلیز کو ملتوی کرنا فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی بدترین غلطی ہوگی کیونکہ ابھی یہ فلم پورے پاکستان میں موضوعِ بحث تھی، اور ممکنہ طور پر اب یہ فلم توجہ سے محروم ہوجائے گی، کیونکہ کل کیا ہوگا کون جانتا ہے؟
میں ذاتی طور پر اس فلم کا شدت سے انتظار کررہا تھا کیونکہ یہ حقیقی واقعات پر مبنی اچھی کہانی لگ رہی تھی۔ اگر یہ فلم اپنے ٹریلر کی طرف دم دار ثابت ہو تو یقینی طور پر پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس کو پذیرائی مل سکتی ہے۔ اگر ایک قدم بڑھ کر مزید امید باندھی جائے تو عین ممکن ہے کہ یہ فلم پاکستان کی جانب سے آسکر کے لیے نامزد بھی ہوسکتی ہے۔
رواں برس اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ سنیماؤں کی اسکرین پر کرکٹ میچ دکھائے گئے، بالخصوص پاک-بھارت ٹی20 ورلڈ کپ میچ کے لیے خصوصی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ کچھ پرانی فلموں کی نمائش بھی کی گئی، ان چند کی گہما گہمیوں کے علاوہ پورا سال پاکستانی سنیما تاریکی میں ڈوبے رہے۔
پاکستان میں رواں برس ریلیز ہونے والی انگریزی فلمیں
اسی تناظر میں سنیما کی رونق واپس لانے والی چند انگریزی فلمیں بھی اسی سال نمائش کے لیے پیش کی گئیں ہیں، جن میں سرِفہرست 'ڈیون' (Dune)، 'میلیگننٹ' (Malignant)، 'رونز گون رونگ' (Ron's gone wrong)، 'وینم: لیٹ دیئربی کارینج' (Venom:let there be carnage)، 'ریزیڈینٹ ایول' (Resident evil)، 'مولان' (Mulan)، 'اٹرنلز' (Eternals)، 'جیمز بونڈ' (James Bond)، 'فاسٹ اینڈ فیورس نائن دی فاسٹ ساگا' (Fast and furious: 9 the fast saga)، 'جنگل کروز' (Jungle cruise)، 'اسپائڈر مین نو وے ہوم' (Spider man no way home) اور 'ویسٹ سائیڈ اسٹوری' (west side story) شامل ہیں، جبکہ اس سال پاکستان میں ریلیز ہونے والی آخری انگریزی فلم 'دی میٹرکس ریزوریکشن' (The Matrix Resurrections) ہے جو 24 دسمبر کو ریلیز ہوگی۔
دسمبر میں انڈین پنجابی فلموں کی نمائش بھی متوقع ہے، اس سلسلے کی پہلی فلم 'ہونسلا رکھ' ہوگی، جبکہ اس اقدام کے تحت مستقبل میں مزید فلموں کی نمائش کے امکانات بھی کافی روشن دکھائی دیتے ہیں۔ ترک اور ایرانی فلموں کی نمائش بھی نئے سال میں متوقع ہے۔
نئے سال میں عید الفطر پر نمائش کے لیے پیش ہونے والی متوقع فلمیں
اگلے سال عیدالفطر اور دیگر مواقعوں پر جن پاکستانی فلموں کی نمائش متوقع ہے ان میں زندگی تماشا، دی لیجنڈ آف مولا جٹ، قائداعظم زندہ باد، تیرے باجرے دی راکھی، چکر، ٹچ بٹن، پیچھے تو دیکھو، عشرت میڈ اِن چائنہ اور گھبرانا نہیں شامل ہیں۔
کہاں پورا پورا سال پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے دستیاب نہیں ہوتیں اور کہاں اتنے سارے فلم ساز (سب نہیں لیکن اکثریت) عید کے موقع پر اپنی اپنی فلمیں ریلیز کرنے کے درپے ہیں، ان کی اس ایک جیسی ٹائمنگ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی کو یقین نہیں کہ عید جیسے تہوار کے علاوہ کسی اور دن ناظرین ان کی فلمیں دیکھنا چاہیں گے۔ درجنوں فلمیں زیرِ تکمیل بھی ہیں جو نئے سال میں مکمل ہوں گی۔
روایتی مسائل اور مکرر مشورے
میں گزشتہ 2 برسوں 2019ء اور 2020ء میں بڑی تفصیل اور عرق ریزی سے لکھ چکا ہوں کہ پاکستانی فلمی صنعت اس وقت کس بحران سے گزر رہی ہے؟ اس کے کیا اسباب رہے ہیں؟ اور کون سے اقدامات ہیں جن کی بدولت اس صنعت کو پاکستان میں بچایا جاسکتا ہے؟ جدید دور کے بدلتے ہوئے رجحانات اور آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کی موجودگی میں پاکستانی فلم سازوں اور پالیسی میکرز کو کیا کرنا ہوگا؟
گزشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت نے فلمی میدان کی ترقی میں اپنا کردار نبھانے کے عہدو پیما تو بہت کیے مگر کسی نے عملی طور پر فلمی صنعت کی مدد نہیں کی، یہاں فلم ساز اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح فلمی صنعت کا تسلسل بحال ہوجائے مگر تاحال معاملات نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔
سرکاری غیر سنجیدگی اور فلمی صنعت کی آخری ہچکیاں
گزشتہ برس وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ سب معاملات طے ہوگئے ہیں، کورونا کی صورتحال کے پیش نظر حکومتی اقدامات کے تحت او ٹی ٹی ڈیجیٹل اسٹریمنگ پلیٹ فارم لانچ کردیا جائے گا۔ گزشتہ سال میں نے لکھا تھا کہ یہ صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں، عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا اور وہی ہوا۔ یہ برس بھی گزر گیا لیکن اقدامات صرف اعلانات تک محدود رہے، میرے منہ میں خاک مگر آئندہ بھی مریض کا حال اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔
موجودہ وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے ازبکستان کے دورے میں تاشقند میں ازبک صدر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے 'ظہیرالدین بابر' کی زندگی پر فلم بنانے کی بات کی ہے۔ ترکی اور پاکستان کی مشترکہ کاوش کے تحت سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی پر ڈراما سیریز بننے جا رہی ہے جس کو حکومتی تائید حاصل ہے۔ مگر پاکستانی فلم سازی اور مقامی سنہری کردار دم توڑ رہے ہیں، ہماری فلمی صنعت آخری ہچکیاں لے رہی ہے مگر اس کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جارہا۔ بے حسی ہے اور بے حد ہے۔
فلمی صنعت کے زوال میں سانجھے حصے دار
پاکستان میں ٹیلی وژن چینلز نے بھی فلمی صنعت کو ڈبونے میں اپنا کلیدی کردار نبھایا۔ فلم سازوں کو مالی فائدہ دینے کے بجائے صرف پروموشن کا جھانسا دے کر اپنے اپنے اداروں کے ٹریڈ مارک سجاتے رہے۔ عملی طور پر فلمی صنعت کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ گنگا الٹی بہتی رہی۔ جس چینل کا فلم پر ٹریڈ مارک ہوتا ہے، دوسرے چینل اس کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کردیتے ہیں، سب چینلوں نے یہ وطیرہ اپنایا ہوا ہے۔
انڈین اور انگریزی فلموں سے ان چینلز کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، سب مل کر ایک ہی فلم کے بارے میں خبریں دے رہے ہوتے ہیں اور اس کو پروموٹ کررہے ہوتے ہیں مگر پاکستانی فلموں کے وقت ان کو پروفیشنل ازم یاد آجاتا ہے۔ پاکستان میں آئی ایس پی آر جیسا منظم ادارہ بھی موجود ہے جو اپنی فلمیں اور نغمات تخلیق کرتا رہتا ہے۔ اس ادارے کی مشاورت سے حکومتی سطح پر کوئی ایسا ادارہ بھی بنایا جاسکتا ہے جس کے تحت سرکاری طور پر بھی فلمیں بنائی جاسکیں، جیسے ماضی میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن یا نیفڈیک ہوا کرتا تھا۔
اسی طرح جامعات میں فلم کے شعبہ جات میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے بھی کچھ ہونا چاہیے مگر کچھ نہیں ہو رہا۔ پاکستانی تو دنیا بھر کا سینما آن لائن دیکھ ہی رہے ہیں لیکن مقامی سطح پر فلمی صنعت کو غیر سنجیدہ لیا گیا تو مقامی فلمی صنعت بند ہوجائے گی اور سنیما سے جڑے لوگوں کا روزگار بھی ختم ہوجائے گا۔ پاکستان میں فلمی صنعت ختم ہوئی تو اس کے ذمے دار مقتدرہ ادارے (جو سب کچھ کرسکتے تھے)، سرکار، میڈیا، فلم ساز ادارے اور گروہ بندیوں کو فروغ دینے والے متعدد اداکار ہوں گے۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ فلم 'جاوید اقبال' کی ریلیز مؤخر ہونے کی وجہ اس فلم کے مرکزی کردار نبھانے والے اداکار کا ریلیز کی تاریخوں پر فلم کے پریمیرز میں آنے سے انکار ہے کیونکہ وہ ان تاریخوں میں کہیں اور مصروف ہیں۔ یہ فلم 24 دسمبر کو ریلیز ہونا تھی۔ اس رویے سے اندازہ لگا لیجیے کہ ابھی تو فلمی صنعت قدموں پر کھڑی نہیں ہوئی تو ان کے اسٹارڈم کا یہ حال ہے، اگر کل کو واقعی فلمی صنعت چل پڑی تو یہ نام نہاد اداکار کیا وطیرہ کریں گے۔ اس طرح کے رویے اور یہ سب، متعلقہ ادارے فلمی صنعت کی مرگ کے ذمے دار ہوں گے۔
آخر میں ایک مشورہ
پاکستانی فلم سازوں کو بھی چاہیے کہ وہ مخصوص تہواروں پر فلمیں ریلیز کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے مختلف مواقعوں پر اپنی فلموں کی نمائش کریں۔ دیگر فلم سازوں سے مشاورت کرکے کچھ ایسا تسلسل بنالیں کہ بالترتیب پاکستانی فلمیں ریلیز ہوں تاکہ ناظرین اپنی مرضی سے طے کرسکیں کہ کس کی فلم دیکھنی ہے۔ ایک وقت میں بہت ساری فلمیں ساتھ ساتھ ریلیز ہوں گی تو نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوگا کیونکہ ناظرین کو مختلف آپشنز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا جبکہ ہماری فلمی صنعت اس وقت اس کی متحمل نہیں ہے۔
ہمیں فلموں کو اس طرح ریلیز کرنا چاہیے کہ ایک وقت میں ایک یا دو پاکستانی فلمیں نمائش پذیر ہوں، ان کی نمائش ختم ہو تو مزید 2 نئی فلمیں لگ جائیں تاکہ اس طرح سینما میں ناظرین کی آمد و رفت بھی متوازن رہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں غیر ملکی فلموں کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلمیں بھی اپنی جگہ بناسکیں گی۔
پاکستانی فلمی صنعت اور اس کی حالتِ زار کی یہ آخری اسٹیج ہے، اب بھی حکومتِ وقت اور ثقافتی اداروں نے اس کو کمک فراہم نہ کی، اور تعاون نہ کیا تو پھر پاکستان میں سنیما کی بحالی بڑی مشکل نظر آتی ہے۔ باقی، یار زندہ صحبت باقی۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔