غلط استعمال کے باعث حکومت، توانائی سبسڈی پالیسی پر نظرِ ثانی کرسکتی ہے
اسلام آباد: گیس کی فراہمی میں رکاوٹوں کے دوران 3 برسوں میں برآمدی صنعت کو سالانہ 80 ارب روپے دینے کے بعد حکومت کو سبسڈی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرنی پڑ سکتی ہے کیوں کہ اسے برآمدات کے فروغ اور سبسڈی کے درمیان بہت معمولی تعلق ملا جبکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سینیئر حکومتی افسر نے بتایا کہ وزارت توانائی کو 3 معتبر بین الاقوامی اداروں یونیورسٹی آف شکاگو، لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس اینڈ انٹرنیشل گروتھ سینٹر کی ایک آزادانہ تحقیق موصول ہوئی ہے۔
تحقیق نے ملک میں پائے جانے والے اس بیانیے کی مکمل حمایت نہیں کی کہ گیس اور بجلی پر سبسڈی سے برآمدات کی نمو کا براہِ راست تعلق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا صنعتوں کو سبسڈائزڈ گیس کی فراہمی ختم کرنے کا ارادہ
وزارت توانائی، خزانہ اور منصوبہ بندی اس بات سے متفق ہیں کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اس پالیسی کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
وزارت توانائی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی جانب سے کیپٹو پاور پلانٹس میں استعمال ہونے والی گیس کی مقدار کو بچانے کے اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے کے بجائے عدالتوں کے ذریعے گیس کی سپلائی اور سبسڈی کے تحفظ کی کوششوں سے ناراض محسوس ہوتی ہے جبکہ گیس کمپنیوں کو دیگر ترجیحی شعبوں کے لیے گیس کی فراہمی کے انتظامات میں مشکلات کا سامنا ہے۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ انہوں نے کارکردگی کی جانچ اور سبسڈی ٹیرف میں معمولی ردو بدل پر عدالت سے حکم امتناع حاصل کرلیا ہے، وہ ریاست کو نچوڑ کر دونوں طرح کے فائدے نہیں اٹھا سکتے۔
یہ دیگر سبسڈیز اور سہولیات مثلاً ڈی ٹی آر ای، ٹی ای آر ایف، ڈی ایل ٹی ایل اسکیموں کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی چھوٹ کے علاوہ ہے۔
مزید پڑھیں: برآمدی شعبوں کے لیے مزید ایک سال سبسڈائزڈ ٹیرف جاری رکھنے کی منظوری
دوسری جانب بااثر آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے وزارت توانائی اور متعلقہ کابینہ کمیٹیوں کو گیس کی فراہمی میں رکاوٹ سمیت اضافی اقدامات اٹھانے سے روکنے کے لیے وزیراعظم سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔
وزات توانائی کو کچھ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کہ کیا ٹیکسٹائل سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈی کی ہر ڈالر پر برآمد کی شکل میں واپسی منصفانہ ہے، اس کے لیے فوری بنیادوں پر مزید مخصوص تحقیق کی جائیں۔
وزارت کو یقین ہے کہ ان صنعتوں کی پیداوار کا بڑا حصہ مقامی منڈیوں میں جاتا ہے۔
یہ نتیجہ تین مذکورہ بالا اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیق سے نکلا جس میں سال 2014 سے 2020 کے دوران 5 برآمدی صنعتوں کی ویلیو چین کا جائزہ لیا گیا تھا۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ترجیحی ٹیرف کا برآمدات پر بہت معمولی اثر تھا جبکہ عارضی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ گیس کی سبسڈی نے مجموعی برآمدات کو 6 فیصد بڑھایا تاہم اس حوالے سے اعداد و شمار کے شواہد کمزور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت اربوں روپے سبسڈی کی حامل ٹیکسٹائل پالیسی متعارف کرانے کیلئے تیار
اس سے ٹیکسٹائل کی برآمدات پر پڑنے والے اثرات اور لاگت کے فوائد کے تجزیے کے لیے مزید مخصوص تحقیق کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔
دوسری جانب تحقیق گیس اور بجلی دونوں سبسڈیز کے لیے مقامی فروخت میں بڑے اضافے کی تصدیق کرتی ہے۔
تحقیق میں کہا گیا کہ سبسڈیز کے مجموعی طور پر بہت کم شماریاتی اہمیت کے ساتھ محدود اثرات ہیں اور ترجیحی ٹیرفس گیم چینجر نہیں ہیں۔
مزید کہا گیا کہ ’ان کے مثبت اثرات ہوسکتے ہیں لیکن نتائج کی حساسیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑی تبدیلیاں نہیں آتیں۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ برآمدی صنعت میں بڑی کمپنیاں شاید سیاسی وجوہات کی بنا پر سبسڈی وصول کر رہی ہیں جبکہ دیگر اہل کمپنیوں کو اس طرح کی سبسڈی میسر نہیں۔
حکومت تین برسوں سے بالترتیب ساڑھے 6 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور 9 سینٹ فی کلو واٹ کے حساب سے سبسڈی والی گیس اور بجلی فراہم کر رہی ہے لیکن اب اسے غیر پائیدار اور غیر اہداف پاتی ہے۔