سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متاثرین کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، وزیر اعظم
سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے 7 سال مکمل ہونے پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک نے ’کامیابی کے ساتھ دہشتگردی کو شکست دے دی ہے‘، انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ہم شہدا کے ’والدین اور حملے میں بچ جانے والوں‘ کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014ء کو ملکی تاریخ کے بدترین دہشتگرد حملے میں اسلحے سے لیس حملہ آوروں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 131 طالب علم اور 10 دیگر افراد شہید ہوگئے تھے۔
اسکول کے بچوں پر ہونے والے اس حملے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر عمر منصور عرف عمر نارے نے اس سفاکانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بعد ازاں امریکی حکومت اور پاک فوج نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ 9 جولائی 2016ء کو عمر منصور افغان صوبے ننگرہار میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔
پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دونوں میں سے ایک کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم کا اپنی ٹوئیٹ میں کہنا تھا کہ ’تشدد اور اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے والوں کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔
کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا؟ شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اسے قوم کے لیے ایک درد ناک دن قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ ’کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا اور کیا ہم نے اپنا راستہ درست کیا‘؟
انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کب خلوص دل کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے؟ اس وقت سوالات بہت زیادہ ہیں اور جوابات بہت کم‘۔
وہ معصوم آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قوم اب تک ’اس سانحے‘ کی شدت کو محسوس کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر کوئی آج تک ان معصوموں کو انصاف ملنے کا منتظر ہے‘۔
قومی خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق انہوں نے مطالبہ کیا کہ جن ’درندوں‘ نے معصوم بچوں اور اساتذہ پر ہونے والے اس حملے کی منصوبہ بندی کی، اس کی معاونت کی اور اسے انجام دیا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔
اس دہشتگرد حملے کے ایک ہفتے بعد 24 دسمبر 2014ء کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان کی بقا کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبہ پیش کیا تھا۔
نواز شریف نے 20 نکات پر مبنی اس منصوبے کو نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا، یہ منصوبہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے طویل اجلاسوں کے بعد طے پایا تھا اور یہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ’ایک فیصلہ کن‘ لمحہ تھا۔ اس وقت وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’ایک لیکر کھینچ دی گئی ہے‘۔
نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کی رجسٹریشن، میڈیا میں دہشت گردی کی تشہیر روکنے، فاٹا اصلاحات، دہشت گردوں کے رابطے کے ذرائع کو ختم کرنے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دہشتگردی کے لیے استعمال کے خلاف اقدامات، عسکریت پسندی کے رجحان کو تبدیل کرنے کے اقدامات، لاقانونیت کو ختم کرنے کے لیے کراچی آپریشن کے آغاز اور دہشتگردوں اور شدت پسندی کو جگہ نہ دینے کے اقدامات شامل تھے۔
نیشنل ایکشن پلان میں ناراض بلوچوں کو منانے، فرقہ ورانہ دہشتگردی کے خاتمے، افغان مہاجرین کی واپسی اور نظام انصاف کی بہتری کی بھی بات کی گئی تھی۔
رواں ماہ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ سیالکوٹ کی فیکٹری میں سری لنکن شہری پری یانتھا کمارا پر توہین مذہب کا الزام لگانے اور اسے تشدد کرکے ہلاک کرنے کے واقعے کے بعد حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔
شیریں مزاری نے ملک میں بڑھتی ہوئی ’شدت پسندی‘ پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہیے۔
سانحہ اے پی ایس پر بننے والا عدالتی کمیشن
اکتوبر 2018ء میں پشاور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے احکامات پر جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد اس واقعے کی تحقیقات کرنا تھا، کمیشن نے اپنی رپورٹ جولائی 2020ء میں سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔
رپورٹ کے خلاصے میں کہا گیا کہ ہمارا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برسرپیکار رہا اور سال 14-2013 میں ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچی، اس کے باوجود ہماری حساس تنصیبات یا سافٹ ٹارگٹس پر ہونے والے حملوں کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر محفوظ سرحدوں اور سرحد پر افغان مہاجرین کی ’آزادانہ نقل و حرکت‘ کی وجہ سے دہشتگرد ’سیکیورٹی سے بچ کر‘ اسکول میں داخل ہوگئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ انتہا پسند عناصر کو مقامی آبادی کی طرف سے مدد فراہم کیے جانا ناقابلِ معافی جرم ہے۔