• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر سے 3 منٹ کا کلپ نکالا گیا، ملک دیوالیہ ہونے کے بیان پر شبر زیدی کی وضاحت

شائع December 16, 2021
شبر زیدی نے نجی یونیورسٹی میں معیشت سے متعلق پریزینٹیشن دی—تصویر: اسکرین گریب
شبر زیدی نے نجی یونیورسٹی میں معیشت سے متعلق پریزینٹیشن دی—تصویر: اسکرین گریب

سوشل میڈیا پر کلپ وائرل ہونے کے بعد شبر زیدی نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ’جامعہ ہمدرد میں کی گئی میری تقریر کو غلط رپورٹ کیا گیا، ڈیڑھ گھنٹے کی پریزینٹیشن میں سے صرف 3 منٹس کو نکال لیا گیا‘۔

ٹوئٹس میں اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہاں میں نے کہا ہے کہ ’مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارے کے ساتھ دیوالیہ ہونے اور اگے بڑھنے کے مسائل ہیں لیکن اس کے حل پر توجہ دیں‘۔

ٹوئٹ میں انہوں نے مزید کہا کہ میں نے جو کہا وہ بنیاد اور یقین کے ساتھ کہا، صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ پوری تقریر کو پڑھ اور سن لیں۔

خیال رہے کہ جامعہ ہمدرد میں ملکی معیشت کے حوالے سے ایک پریزینٹیشن دیتے ہوئے سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ملک بہت اچھا چل رہا ہے، ہم نے بہت کامیابی حاصل کرلی، ہم تبدیلی لے کر آگئے لیکن میری نظر میں یہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے اور اکاؤنٹنگ کی تعریف میں آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کرنا کہ تسلیم کرلیا جائے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے اور اب ہمیں آگے بڑھنا ہے، یہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ کہا جائے کہ ملک اچھا چل رہا ہے، میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا، یہ لوگوں کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔

’قرضوں کی ری ماڈلنگ کرنا ضروری ہے‘

اپنی پریزینٹیشن میں سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ صوبے این ایف سی سے پیسے وصول کرلیتے ہیں لیکن اسے آگے تقسیم نہیں کرتے اور وہاں کرپشن ہوجاتی ہے۔

شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان میں جگہ جگہ ایکسچینج کمپنیاں کھلی ہوئی ہیں، لوگ ڈالرز جیب میں لے کر گھوم رہے ہیں، اس پر ملک نہیں چلایاجاسکتا، یہ کام نہیں کرے گا کیوں کہ ایکسچینج کمپنیوں کے پیچھے حوالہ کی کمپنیاں قائم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال کے 5 ماہ میں غیر ملکی قرضوں میں 45 فیصد اضافہ ہوا

انہوں نے کہا کہ ایکسچینج پالیسی کی مکمل تجدید نو کرنی پڑے گی، دوسرا یہ کہ ملکی قرضے جو تقریباً 25 ہزار ارب روپے کے برابر ہیں انہیں ری ماڈل کرنا پڑے گا اور سوچنا پڑے گا کہ جو وفاقی حکومت کے اثاثے ہیں مثلاً اراضی وغیرہ، کیا انہیں قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ قرضے جاری رہے تو ہماری معیشت میں اتنی گنجائش نہیں ہو گی کہ ہم عوامی فلاح کا کوئی پروگرام کرسکیں اس لیے ملکی قرضوں کی ری ماڈلنگ کرنی پڑے گی۔

شبر زیدی نے کہا کہ یہ کہنے سے کہ قرض نواز شریف نے لیا تھا یا عمران خان نے لیا تھا، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، قرض چاہے پرویز مشرف، آصف زرداری، نواز شریف یا عمران خان میں سے کسی نے بھی لیا ہو وہ قرض پاکستان کا ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی کرنی پڑے گی لیکن کس طرح کرنا ہے اصل سوال وہ ہے۔

’یہ نہیں ہوسکتا کہ 4 لوگ بیٹھ کر ملکی معیشت کا فیصلہ کریں‘

ان کا کہنا تھا کہ ڈسکاؤنٹ ریٹ کا مذاق بنایا ہوا ہے اسے سیٹل کرنا پڑے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ روم میں 4 لوگ بیٹھ کر ڈسکاؤنٹ ریٹ کا فیصلہ کرلیں جبکہ ساری دنیا اس سے مختلف بات کررہی ہو۔

سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ وہ 4 بندے کہاں سے آئے، انہیں کس نے تعینات کیا، ان کی کیا قابلیت ہے کیا بنیاد ہے، یہ اس طرح نہیں کیا جاسکتا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دے دیں، ٹھیک ہے دے دیں تو اس کا بورڈ کون ہوگا اس میں تعیناتی کون کرے گا، یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اگر میں وزیر خزانہ ہوں تو میرے 4 جاننے والے بورڈ میں شامل ہوجائیں اور بیٹھ کر پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کریں، یہ کام اس طرح نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں:پالیسی ریٹ میں 100بیسس پوائنٹس کا اضافہ، شرح سود 9.75فیصد کرنے کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کسی بھی ملک میں برآمدات کی ترقی اس صورت ہوئی کہ برآمدات ساحلی علاقوں میں تیار کی جارہی ہو، یہ نہیں کرسکتے کہ یہاں سے توانائی ساہیوال لے کر جائیں، وہاں خام مال پہنچائیں پھر فیصل آباد میں تیار کریں اور کراچی لا کر برآمد کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایکسپورٹیبل سرپلس جب آئے گا جنوبی پاکستان سے آئے گا، دنیا میں جس نے بھی ایکسپورٹیبل سرپلس بنائے وہ صرف اس وقت آسکتے ہیں کہ قابل برآمد مصنوعات بندرگاہ کے نزدیک تیار کی جائے۔

’ترسیلات زر کے تصور سے نکلنا پڑے گا‘

انہوں نے کہا کہ تین طرح کی ٹرانسپورٹ کے ساتھ برآمدات میں آپ کبھی مسابقت میں نہیں آسکتے، اس کے لیے ایکسپورٹیبل سرپلس کو جنوبی پاکستان کو منتقل کرنا پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ ترسیلات زر کے تصور سے نکلنا پڑے گا کیوں کہ ترسیلات زر افرادی قوت کی برآمد ہوتی ہے، ہمیں افرادی قوت نہیں بلکہ خدمات ایکسپورٹ کرنی ہیں مثلاً کسی جامعہ میں دوسرے ممالک کے طلبا کو راغب کر کے انہیں تعلیم برآمد کرنا وغیرہ۔

یہ بھی پڑھیں:رواں مالی سال کے 5 ماہ میں ترسیلات زر 10 فیصد اضافے کے بعد 13 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں

شبر زیدی نے کہا کہ ہمیں طبی خدمات، انجینیئرنگ سروسز، اکاؤنٹنٹ سروسز برآمد کرنی ہیں، ڈاکٹر، انجینیئرز اور اکاؤنٹنٹس ایکسپورٹ نہیں کرنے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اخراجات کرکے ایک اچھا ڈاکٹر تیار کرتے ہیں جو دبئی چلا جاتا ہے، یہ بے کار ہے، دنیا اس پر نہیں چلتی، بندہ نہیں بلکہ سروسز ایکسپورٹ کرنی ہیں۔

’جب تک افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا پاکستان عذاب میں پھنسا رہے گا‘

شبر زیدی نے کہا کہ اس چیز سے آپ اتفاق اور عدم اتفاق کرسکتے ہیں کہ جب تک افغانستان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہوسکتی، پاکستان کی معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی، 15 اگست کو آپ نے طالبان کا خیر مقدم کیا تو جب تک افغانستان میں جامع حکومت نہیں آئے گی، مغربی ممالک انہیں تسلیم نہیں کریں گے اور اس وقت تک آپ اس عذاب میں پھنسے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کو 15 اگست 2021 کو پیش آنے والے واقعے کی سزا مل رہی ہے، یہ فیصلہ آپ کو کرنا پڑے گا کہ کیا آپ کے پاس اس سزا کو بھگتنے کی ہمت ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ فوری طور پر امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ ’انتہائی اچھے‘ تعلقات بنانے پڑیں گے، کیوں کہ پاکستان کی برآمدات 20 ارب ڈالر ہے جب یہ 40 یا 50 ارب تک پہنچے گی تو اس کا خریدار مغرب ہوگا اور کوئی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہوگا، وزیر اعظم

شبر زیدی نے کہا کہ فیصلہ کرلیں کہ برآمدات نہیں بڑھانی یا اگر اسے بڑھانا ہے تو واشنگٹن سے دوستی کرنی پڑے گی، یہ نہیں ہوسکتا کہ برآمدات بھی بڑھانی ہو اور واشنگٹن کو گالیاں بھی دیتے رہیں، یہ دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا آپ کا خریدار ہے اسے خوش رکھنا ہے، کرنا ہے تو کریں نہیں کرنا تو نہ کریں۔

’بھارت سے تجارت روکنے کا فیصلہ غلط ہے‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شفافیت اور حد بندی لے کر آئیں کہ ان میں کون سے منصوبے شامل ہیں اور کون سے نہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ سیاسی بنیادوں پر معاشی فیصلے کرلیں اور اس معاشی فیصلے جس کی کوئی بنیاد نہ ہو اس سے پاکستان کی پوری معیشت ڈسٹرب کردیں۔

شبر زیدی نے مزید کہا کہ اس کے بعد آپ کو علاقائی تجارت کی جانب جانا ہوگا، دنیا میں کوئی ملک یا خطہ علاقائی تجارت کو فروغ دیے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ آپ بھارت سے دوائیں حاصل کررہے ہیں، اس وقت دشمنی کہاں چلی جاتی ہے اور باقی چیزوں میں کیا مسئلہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے غلط بنیاد پر فیصلہ کیا، اتنی ہمت ہے تو بھارت سے دواؤں کا خام مال بھی نہ لیں۔

مزید پڑھیں:کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت نہیں ہوسکتی، وزیر اعظم

انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی تجارت میں کی گئی ڈرامے بازی کو ختم کیا جائے اور جو چیز معاشی درجہ بندی میں آتی ہیں اسے لے کر چلیں۔

شبر زیدی نے کہا کہ 4 چیزوں کے ساتھ یہ ملک نہیں چل سکتا ایک یہ کہ ایڈمنسٹریشن معیشت کو خراب کردیتی ہے، صوبائی حکومتیں نان ورک ایبل ہیں، فوری طور پر اسے 9 صوبوں میں تقسیم کرنا پڑے گا، بھارت کی آزادی کے وقت اس کے 17 صوبے تھے آج 23 ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی پرائمری اسکول چاہے دیہات میں ہو یا شہر میں وہاں انگریزی ہونی چاہیے کیوں کہ جو بچہ چھٹی جماعت سے انگریزی پڑھنا شروع کرتا ہے وہ دوسرے درجے کا پاکستانی شہری بن جاتا ہے جو انگلش میڈیم سے پڑھ کر آنے والے بچے کا کبھی مقابلہ نہیں کر پاتا، ایک نسل تیار کردی گئی ہے جو احساس کمتری کا شکار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ معاشرہ، سیاست اور معیشت ایک ساتھ چلتی ہیں جسے آپ کو سیدھا کرنا پڑے گا.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024