بچوں کو معذوری سے بچائیں، پاکستان کو پولیو سے پاک کریں،دو قطرے ہر بار
یہ 1908ء کا سال تھا جب ویانا سے تعلق رکھنے والے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر کارل لینڈسٹایئنر نے یہ دریافت کیا کہ بچوں کا اپاہج ہونا کسی بیکٹیریا نہیں بلکہ ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے, ڈاکٹر کارل نے دراصل پولیو کے وائرس کی دریافت کی تھی, بعد ازاں 1950ء کی دہائی میں امریکی ڈاکٹر جان سالک نے انجیکشن کے ذریعے لگائی جانے والی پولیو ویکسین تیار کی جس کا 18 لاکھ بچوں پر کامیاب تجربہ کیا گیا۔
1960ء کی دہائی میں ایک اور امریکی ڈاکٹر البرٹ سیبن نے پلائی جانے والی پولیو ویکسین ایجاد کی جو دنیا بھر میں مقبول ہوئی اور آج تک استعمال ہورہی ہے, ان ویکسینز سے ترقی یافتہ ممالک میں پولیو وائرس پر کافی حد تک قابو پالیا گیا۔
تاہم ترقی پذیر ممالک میں یہ وائرس اب بھی مہلک ثابت ہورہا تھا، 1980ء کی دہائی میں جب عالمی انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا گیا تو اس وقت یہ وائرس روزانہ تقریباً ایک ہزار بچوں کو اپنا نشانہ بنا رہا تھا، اس کے بعد سے اس شرح میں 99 فیصد تک کمی آچکی ہے اور 200 ممالک میں تقریباً 2 ارب 50 کروڑ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین دی جاچکی ہے، اس وقت دنیا میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جہاں پولیو وائرس اب بھی اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہے، یہ ممالک افغانستان اور پاکستان ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پولیو وائرس کی منتقلی: 4 اہم نکات جو وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بنتے ہیں
پاکستان میں پولیو کے خلاف فعال اقدامات 1994ء میں انسداد پولیو پروگرام کی صورت میں شروع ہوئے، اس کے بعد سے اب تک ملک میں پولیو ویکسینشن کی 100 سے زائد مہمات ہوچکی ہیں، اس عرصے کے دوران پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد میں اتار چڑھاؤ تو آتا رہا لیکن پاکستان پولیو کے مکمل خاتمے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
پاکستان پولیو کے خلاف جنگ میں کامیابی کیوں حاصل نہیں کرسکا؟
اس تمہید سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا اس وائرس کے خلاف جنگ جیتنے میں کامیاب ہوچکی ہے تو آخر کم و پیش 3 دہائیوں کی کوششوں کے باوجود پاکستان اس وبا سے چھٹکارا کیو ں حاصل نہ کرسکا؟ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ پولیو ویکسین کے حوالے سے والدین کی غیر سنجیدگی اور بےجا خدشات ہیں۔
پاکستان میں والدین پولیو ویکسین نے حرام ہونے، اس کے کسی دوسری بیماری کا سبب بننے یا اس کے تولیدی صحت پر اثر انداز ہونے جیسی افواہوں کے باعث یا تو بچوں کو پولیو کے قطرے پلواتے ہی نہیں یا پھر جو والدین یہ قطرے پلواتے ہیں وہ بھی اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ بچوں کو 5 سال کی عمر تک ہر مرتبہ باقاعدگی سے پولیو ویکسین کے قطرے پلوائے جائیں۔ یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ 5 سال کی عمر تک بچوں میں پولیو وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
پاکستان میں خصوصاً بلوچستان کے علاقے میں یہ رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین بچیوں کو تو پولیو ویکسین پلوانے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں لیکن لڑکوں کو ویکسین پلوانے سے کتراتے ہیں اور جب پولیو ٹیمیں ان کے دروازے پر پہنچتی ہیں تو وہ لڑکوں کو چھپادیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ والدین اپنی اکلوتی اولاد خاص طور سے اگر وہ لڑکا ہو تو اسے پولیو ویکسین نہیں پلاتے۔ اس کے پیچھے ہمارا وہی معاشرتی تصور ہے جس کے تحت لڑکوں کو نسل بڑھانے کے ذمہ دار سمجھتے ہوئے لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ چونکہ والدین ان افواہوں پر یقین کرلیتے ہیں کہ پولیو ویکسین تولیدی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اس وجہ سے وہ لڑکوں کو پولیو ویکسین نہیں پلواتے، انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اس طرح کہیں ان کی نسل بڑھنے سے رک جائے۔
مزید پڑھیں: پولیو وائرس کیسے حملہ کرتا ہے؟
ایسے والدین کو اس بات کا مکمل اطمینان ہونا چاہیے کہ پولیو ویکسین کسی بھی طرح لڑکوں یا لڑکیوں کی تولیدی صحت کو متاثر نہیں کرتی اور یہ ویکسین بچوں کے لیے بالکل محفوظ ہے۔
کیا پولیو ویکسین کے کوئی نقصانات بھی ہیں؟
پولیو ویکسین کا شمار دنیا کی محفوظ ترین ویکسینز میں ہوتا ہے, پولیو ویکسین اتنی محفوظ ہیں کہ اسے کمزور، بیمار اور نومولود بچوں کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جن پولیو ویکسینز میں پولیو کا غیر فعال وائرس موجود ہوتا ہے وہ نظری طور پر پولیو کا باعث بن سکتی ہیں تاہم یہ خطرہ 25 لاکھ خوراکوں میں سے صرف ایک میں ہوتا ہے اور وہ بھی صرف پہلی خوراک کے لیے، خوراکوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی تقریباً ختم ہوجاتا ہے، یعنی ویکسین نہ پینے والے بچوں میں ویکسین پینے والے بچوں کی نسبت وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
کیا پولیو ویکسین حلال ہے؟
2015ء میں ڈریپ کی نیشنل کنٹرول لیبارٹری فار بائیولاجیکلز میں ہونے والے ٹیسٹ میں یہ واضح ہوگیا کہ پاکستان میں استعمال ہونے والی پولیو ویکسین مکمل طور پر حلال ہے اور یہ ویکسین اور نہ ہی اس ویکسین میں شامل کوئی جزو تولیدی صحت کو متاثر کرتا۔
یہ بھی پڑھیں: مذہبی رہنماؤں نے پولیو ویکسین کے خلاف افواہیں مسترد کردیں
یاد رکھیے کہ پولیو کا کوئی علاج موجود نہیں ہے لیکن پولیو ویکسین کی بدولت اس سے بچاؤ ضرور ممکن ہے اور یہ ویکسین ہی پولیو کے خلاف ہمارا واحد ہتھیار ہے، سال 2017ء میں بھی پاکستان اس وائرس سے چھٹکارا پانے ہی کو تھا لیکن پولیو ویکسین کے حوالے سے غیر سنجیدہ طرزعمل کے باعث ہم اس سے نجات حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم اب بھی ہم 5 سال کی عمر تک کے ہر بچے کو ہر بار پولیو ویکسن کے 2 قطرے پلاکر پاکستان کو اس وائرس سے چھٹکارا دلواسکتے ہیں۔
ہمارے بچے ہی ہمارا اور اس ملک کا مستقبل ہیں اور اگر آپ اپنے مستقبل کو بیساکھی کے بجائے اپنے قدموں پر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو یاد رکھیے کہ ’پولیو ویکسین کے 2 قطرے، ہر بچہ ، ہر بار‘۔