کیا عرب ممالک نے اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں؟
’آخر عربوں نے یورپی یہودیوں کو کیا نقصان پہنچایا ہے؟ یہ تو جرمن عیسائی تھے جنہوں نے ان کے گھر اور جانیں ہتھیا لیں۔ جرمنوں کو اس کی قیمت ادا کرنے دیں‘۔
یہ الفاظ سعودی بادشاہ عبد العزیز نے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ سے کہے تھے۔ کسی بھی سعودی بادشاہ اور امریکی صدر کے درمیان ہونے والی یہ پہلی ملاقات 14 فروری 1945ء کو نہر سوئز میں امریکی جنگی بحری جہاز کوئنسی پر ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم اپنے انجام کے قریب تھی۔
وہ 20ویں صدی کے وسط کی بات تھی اور اب 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں ہمیں کوئی ایسا عرب حکمران ڈھونڈنا پڑے گا جو مغربی رہنماؤں کے سامنے یہ الفاظ کہہ سکے۔ اس وقت اسرائیل ایک کے بعد ایک سفارتی کامیابیاں سمیٹ رہا ہے اور اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ اسرائیل فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر بھی عرب دنیا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے۔
کیا اسرائیل نے امن کے لیے عرب کوششوں کا جواب دیا ہے جنہیں معاہداتِ ابراہیمی کا پُر فریب نام دیا گیا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آخر مشرق وسطیٰ کی سپر پاور اس کا جواب کیوں دیتی؟ کیا اسرائیل عسکری اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے عرب ممالک کی طرح صفر ہے؟
مزید پڑھیے: مسئلہ فلسطین: وہ کام جنہوں نے اسرائیل کے اندر ایک نیا محاذ کھول دیا
گزشتہ سال نومبر میں تب ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا جب اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات سے تل ابیب آنے والی پہلی مسافر پرواز کو ’السلام علیکم‘ کہہ کر خوش آمدید کہا اور انہیں بار بار اسرائیل آنے کا کہا۔ بلاشبہ پروازوں کا آنا اور سفارتخانوں کا کھلنا اسرائیل کے لیے کسی بڑی سفارتی فتح سے کم نہیں تھا اور اس کام میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے کی پالیسی نے بہت مدد کی۔
14 جولائی کو متحدہ عرب امارات نے تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ کھولا، جی ہاں تل ابیب میں۔ ویسے بھی اگر امارات اپنی تمام تر حکمت اختیار کرتے ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ یروشلم میں بھی اپنا سفارت خانہ قائم کرلیتا تو فلسطینی کیا کرلیتے؟ دوسری جانب خیلج میں بھی اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپید نے ابو ظہبی میں اسرائیلی سفارت خانے کا افتتاح کیا۔ یوں متحدہ عرب امارات اسرائیلی سفارت خانہ رکھنے والا پہلا خلیجی ملک بن گیا۔ بعد ازاں دبئی میں بھی ایک اسرائیلی کونسل خانے کا افتتاح کیا گیا۔
آپ عرب حکمرانوں کے حوالے سے اسرائیل کے ہتک آمیز رویے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ویسے بھی یہ حکمران 19ویں صدی کے افریقی ایشیائی خادموں کی طرح ہیں جو اپنا اقتدار بچانے کے لیے یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کے معمولی افسران کے آگے جھک جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ صیہونیوں نے عربوں کی رضامندی کو بالائے طاق ہی رکھا ہے۔
اسرائیلی رہنما شائستگی کی خاطر عارضی طور پر بھی سفارتی طریقوں کا خیال نہیں رکھتے۔ چند سال پہلے تک، اسرائیلی رہنما دو ریاستی حل پر بھی کچھ گفتگو کرلیتے تھے اور یہودی بستیوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرلیتے تھے۔ تاہم اب اسرائیلی قیادت خلیجی رہنماؤں کی فرمانبرداری کے بارے میں اس قدر پراعتماد ہے کہ اسے سفارتی دوغلے پن کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: اسرائیل میں بھی تبدیلی کی حکومت یا صدی کا سب سے بڑا فراڈ
اگست میں امریکی صدر جو بائیڈن سے واشنگٹن میں ملاقات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل مزید بستیاں تعمیر کرے گا اور 1967ء میں قبضہ کیے گئے علاقوں پر کسی فلسطینی ریاست کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس بیان پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل نے مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ایک ہزار نئی بستیوں کی تعمیر کے ٹینڈر جاری کردیے۔
اسرائیل کے اس اقدام پر بائیڈن انتظامیہ کو بھی امریکا میں موجود طاقتور اسرائیلی لابی کے خلاف جاتے ہوئے یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ مشرقی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ امریکا نے تو یہ بیان جاری کردیا لیکن اسرائیل کے نام نہاد عرب اتحادیوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں آیا۔
اسرائیل نے اپنے عرب دوستوں کا اصل امتحان تو مئی کے مہینے میں لیا جب اس نے 11 دنوں تک غزہ میں تباہی مچائے رکھی اس دوران رہائشی اور کاروباری عمارتوں کو زمین بوس کیا گیا۔ ان میں ایک ایسی عمارت بھی شامل تھی جس میں میڈیا (بشمول الجزیرہ) کے دفاتر بھی موجود تھے۔ اسرائیلی حملوں میں 39 خواتین اور 66 بچوں سمیت تقریباً 250 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران اسرائیل نے اوسطاً 25 منٹوں میں 125 بم گرائے۔
مزید پڑھیے: 2021ء مسلم دنیا کے لیے فیصلہ کن سال
حیران کن بات یہ ہے کہ غزہ میں ہونے والے قتل عام کا عرب ریاستوں کی مشترکہ پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑا جس کا ثبوت اسرائیل، امریکا اور دو خلیجی ریاستوں یعنی بحرین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے گزشتہ ماہ بحیرہ احمر میں کی جانے والی مشترکہ بحری مشقیں ہیں۔ اسرائیلی بحریہ کے ایک ترجمان کے مطابق ان مشقوں کا مقصد خلیج میں ایران کی جانب سے طاقت کے بڑھتے ہوئے اظہار کا مقابلہ کرنا تھا۔
اگر عرب ریاستوں نے فلسطین کو بھلا دیا ہے تو کوئی ہے جسے اب بھی فلسطین یاد ہے۔ شاید یہ سننے میں عجیب لگے لیکن اینجلا مرکل نے بطور جرمن چانسلر اپنے آخری دورہ اسرائیل میں میزبانوں کو یہ یاد دلوایا کہ انہیں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
ایک اسرائیلی تھنک ٹینک سے بات کرتے ہوئے مرکل کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے سفارتی اقدامات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ ہمیں فلسطینیوں کے لیے زندگی گزارنے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اسی وجہ سے کسی بھی صورت میں دو ریاستی حل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے پھر چاہے نئی بستیوں کی تعمیر سے یہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہوجائے‘۔
تو کیا اب کوئی عرب ریاست جرمنوں کی مدد کرے گی؟
یہ مضمون 12 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں