ہائیکورٹ میں زیر التوا ایک اپیل کیلئے پوری عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، اٹارنی جنرل
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس ہائی کورٹ میں ایک سزا کے خلاف اپیل چل رہی ہے، جس کے لیے پوری عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے معاملے کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان معاونت کے لیے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں یہ عدالت کس کو تحقیقات کرنے کی ہدایت دے؟
یہ بھی پڑھیں:نواز شریف، مریم نواز کے ٹرائل سے متعلق آڈیو کلپ جعلی ہے، سابق چیف جسٹس
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی ہے، یوں لگتا ہے یہ پراکسی درخواست ہے جو انہوں نے دائر کی۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ایسا تاثر نہیں ہونا چاہئیے کہ درخواست گزار کسی اور کا کیس لڑ رہے ہیں، کبھی کبھی ہمیں پتا نہیں ہوتا کہ ہمیں کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔
جو بھی زندہ لوگ ہیں ان سب کا احتساب کر لیتے ہیں، اٹارنی جنرل
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عدلیہ کو ہراساں کرنے اور دباؤ ڈالنے کا سیزن ہے، کبھی کوئی آڈیو، کبھی کوئی بنایا گیا ڈاکیومنٹ ریلیز کیا جاتا ہے۔
خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے 2017 کے واقعات کا ذکر کیا ہے، ایک وزیراعظم تھا جسے مبہم عدالتی حکم پر پھانسی بھی دی گئی، بینظیر کی حکومت واپس بحال نہیں کی جاتی تھیہ لیکن دوسری کردی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بریف کیس بھر کر بھی دیے جاتے رہے، درخواست گزار نے ماضی میں جانا ہے تو درخواست میں ترمیم کریں، صرف 2017 میں کیوں جائیں، ذوالفقار علی بھٹو تک جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں:’آڈیو ٹیپ جن کے کیسز سے متعلق ہے انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی‘
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جلا وطن کرنے کی سہولت ایک وزیراعطم کو دی جاتی ہے تو بھٹو کو کیوں نہیں دی گئی؟ پتا لگنا چائیے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو کیوں ہٹایا گیا؟ رقم سے بھرے ہوئے سوٹ کیس کسے جاتے رہے؟
اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ جو بھی زندہ لوگ ہیں ان سب کا احتساب کر لیتے ہیں، صرف چُن کر ایک وزیراعظم کے لیے پراکسی بن کر کیوں لوگ عدالت آرہے ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک وزیراعلیٰ نے جج کو فون کیا، فیصلہ کالعدم ہو گیا لیکن کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہزاروں افراد کو نوکری سے نکال دیا گیا ان کی کوئی ویڈیو نہیں آئی، یہ پراکسی جنگ ہے، ایک شخص کے لیے بار بار ویڈیوز آ رہی ہیں، ہر کوئی آج کہہ رہا ہے کہ میرے پاس دو ویڈیوز ہیں چار ویڈیوز ہیں، سیکڑوں افراد کی زمینوں پر قبضہ ہو جاتا ہے اس کی کوئی ویڈیو نہیں آتی۔
پراکسی وار صرف ایک اپیل کیلئے لڑی جارہی ہے، اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج یوم حساب ہے، وکلا ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز کے کپڑے پھاڑ دیتے ہیں پھر ایک مذمت جاری کر دی جاتی ہے، بار نے ہی سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگائے۔
درخواست گزار ایڈووکیٹ صلاح الدین نے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل ہر کیس کا ذمہ دار بار ایسوسی ایشن کو ٹھہرا رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے عدلیہ اور ججز کے خلاف بیانات نکال کر دیکھ لیں، یہ توجہ ہٹانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ 70 سال کا احتساب کریں یا کسی کا نہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں:بار ایسوسی ایشن، جوڈیشل کمیشن نے سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا
عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ اگر ہم آڈیو کی تحقیقات کرانے کی درخواست قابل سماعت بھی قرار دیں تو کیا ہوگا؟
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جن کے کیسز ہیں وہ عدالت نہیں آئے، میرا مؤقف یہ ہے عدالتوں کو متنازع کیا جا رہا ہے، عدلیہ تحقیقات کروا کر یہ سلسلہ روک سکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج کل ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے کوئی بھی آڈیو یا ویڈیو بن سکتی ہے، کوئی بھی آڈیو بنا کر کہہ دے اس پر تحقیقات کریں، اس آڈیو پر تحقیقات شروع کردیں تو زیر التوا اپیلوں پر کیا اثر پڑے گا؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں ساری چیزیں گھوم پھر کر ایک اپیل تک جاتی ہیں، یہ پراکسی وار صرف ایک کیس کے لیے لڑی جارہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ میں خود ترمیمی درخواست دائر کرنے کو تیار ہوں ماضی سے احتساب کیا جائے، ماضی کے تمام معاملات کو بھی بحث کے لیے پارلیمنٹ بھیج دیں۔
ایڈووکیٹ صلاح الدین نے کہا کہ اٹارنی جنرل حکومت سے کہہ کر ماضی کا جو احتساب کرنا ہے کر لیں، اس کیس سے ماضی کے کیسز جوڑنے کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے۔
مزید پڑھیں:ثاقب نثار بتائیں کس نے مجھے اور نواز شریف کو سزا دینے پر مجبور کیا، مریم نواز
انہوں نے مزید کہا کہ بیان حلفی کا کیس اسی عدالت میں زیر التوا ہے، آڈیو تحقیقات کا معاملہ بھی قابل سماعت ہو سکتا ہے۔
جس پر عدالت نے کہا کہ بیان حلفی کا معاملہ الگ ہے وہ بیان حلفی دینے والے خود عدالت آئے ہیں، آپ جس آڈیو کی بات کر رہے ہیں اس پر آپ کو بھی یقین نہیں کہ ٹھیک ہے، معاملے پر کمیشن تو اس وقت بنے جب کوئی گراونڈ موجود ہو۔
جن کے کیسز ہیں وہ ویڈیو عدالت نہیں لائے تو ہم کیوں تحقیقات کریں، عدالت
عدالت عالیہ کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں کے کیسز ہیں وہ اگر کوئی آڈیو نہیں عدالت لاتے تو ہم کیوں کریں؟ کیا کوئی آڈیو کی اونر شپ لینے والا ہے؟ ساتھ ہی درخواست گزار سے استفسار کیا کہ بتائیں اس درخواست کے لیے آپ کے پاس بنیاد کیا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست ترمیم کر کے لائیں میں سارا معاملہ پارلیمنٹ لے کر جاؤں گا، درخواست میں ماضی کے معاملات پر بھی تحقیقات کی استدعا شامل کریں۔
جس پر عدالت نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے آج آپ کو بڑی آفر کی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا بنیادی اعتراض یہی ہے کہ یہ پراکسی پٹیشن ہے۔
درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل مکمل نہ ہو سکے جس پر ہائی کورٹ نے سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کر دی۔