کیا پاکستان بٹ کوائن سے متعلق ایل سلواڈور جیسا انقلابی فیصلہ کرسکتا ہے؟
'مسئلہ فیثا غورث' اردو میں آیا تو حل ہونے کے بجائے ایک مثال بن کر رہ گیا۔ ایک ایسی مثال جسے سمجھنے کے لیے کئی نسلیں صَرف ہوئی تھیں، اس کا حل بالآخر کچھ یوں ہوا کہ یہ اردو میں ناممکن عمل کے لیے بطور اصطلاح استعمال ہونے لگا۔
معاملہ ایک مثلث کو سمجھنے کا نہ تھا اور نہ ہی قضیہ قاعدے، ارتفاع اور وتر کو اردو میں سمجھنے کا تھا۔ مسئلہ 'ڈیلٹا' تھا جس سے متعلق لٹریچر کبھی اردو میں موجود ہی نہیں تھا، اس وجہ سے اس کا استعمال اور حقائق سے لاعلم نسل اسے رٹے لگا کر بھی سمجھ نہ پائی اور نتیجہ ریاضی کے ضمن میں یکے بعد دیگرے 'اداس نسلیں' معرضِ وجود میں آئیں۔
پاکستان کی تمام قومی زبانوں کا دعویٰ ہے کہ بچوں کو انہی کی زبان میں پڑھانا چاہیے اور اس حوالے سے دنیا کے بہترین دماغوں کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں، لیکن جہاں جہاں تجربے ہوئے وہاں کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اردو کی بات کریں تو کیمیائی مرکب تک کے الفاظ کا ذخیرہ تو موجود تھا لیکن پھر بعد کی جدیدیت انگریزی میں ہی رہی اور زبان دانوں نے آسان حل ڈھونڈتے ہوئے انگریزی کو اردو میں لکھنا شروع کردیا۔ کچھ اصطلاحات کو انگریزی زدہ اردو میں لکھ کر کیا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟
پڑھیے: معذوری کو شکست دے کر دنیا کیلئے اہم کردار ادا کرنے والے طاقتور سائنسدان
فرض کریں کہ میں Mathmetical Composition کو میتھیائی مرکب لکھ دوں تو کیا یہ لفظ کسی بھی طور پر کسی کو یہ سمجھا سکتا ہے کہ اس کے معنی کیا ہیں؟ یقیناً اہلِ زبان کچھ نہ کچھ بتا کر تشفی طلب جواب دے دیں گے مگر یہ ویسا ہی جواب ہوگا جیسا 70 سال سے پاکستان کے تمام مسائل کا حل بتانے پر حقیقت سے پرے جواب دیا جاتا رہا ہے۔
اگر ہم اس اصطلاح کو کسی بھی طور پر سمجھتے اور پاکستان میں اس کو سمجھنے یا سمجھانے والے ہوتے تو گوگل جیسا نہ سہی لیکن اس نوعیت کا کوئی چھوٹا موٹا ادارہ پاکستان میں بھی موجود ہوتا، ہم صرف فیس بک استعمال کرنے والے نہ ہوتے، ہم ٹوئٹر کی طرح کوئی ادارہ قائم کرنے کے قابل بھی ہوتے، یا پھر ٹک ٹاک طرز کا کوئی ایپ ہی بنا ڈالتے، ہم بٹ کوائن کو صرف اس کی قیمت یا منافعے کے زاویے سے نہیں بلکہ اس کی اصل اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے سمجھتے۔
کوڈنگ سے کرپٹو گرافی کے انقلاب تک سب معرکہ آرا کام میتیھائی مرکب ہی ہیں۔ ٹوئٹر کے سی ای او جیک ڈورسی نے کمپنی اس لیے نہیں چھوڑی کہ اسے مزید پیسا نہیں کمانا بلکہ اس وجہ سے چھوڑی کہ وہ اس مرکب کو سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے بلاک بنائی اور اب بٹ کوائن ڈی سینٹرلائزیشن کو استعمال کرکے دنیا بھر کے بینکاری نظام میں انقلاب پیدا کرنے کے درپے ہے۔
وہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟ اس سوال سے قطع نظر وہ اپنے جواب کی تلاش میں نکل پڑا کیونکہ وہ اس مرکب کی گہرائی ناپنا چاہتا ہے۔
2007ء کے معاشی بحران کے دوران ستوشی (یہ واضح نہیں کہ ستوشی ایک شخص تھا یا ٹیم، البتہ اسے بٹ کوائنرز شخص کے طور پر لیتے ہیں کیونکہ اگر ٹیم ہوتی تو سامنے آتی۔ ستوشی قرین قیاس میں ایک فرد ہے) نے اسی مرکب کی بنا کر دنیا میں افراطِ زر کے مسئلے کا پہلا حل پیش کیا۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ ایک ایسی ویلیو جس کی سپلائی مستحکم ہو وہ کسی بھی صورت بڑھائی یا گھٹائی نہ جاسکے اور اس کی رسائی ہر شخص تک ہو۔ انسانی تاریخ میں کرنسی کی شکل بدلنے سے ہمیشہ انقلاب برپا ہوا، دنیا بھر میں ستوشی کی ایجاد انقلاب برپا کر رہی ہے لیکن ہم اب تک صرف اس کی قیمت کے اتار چڑھاؤ تک ہی محدود ہیں۔
بطور اثاثہ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں اور اب ملک بھی اسے بطور ریزرو رکھ رہے ہیں لیکن ہم ابھی اسے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے کیونکہ اگر پیسے پر یہ کنٹرول اٹھ گیا تو ریاستی جبر کا سب سے بڑا ہتھیار ختم ہوجائے گا۔
پاکستان میں بیٹھے ایک بینکار کی تنخواہ نمبر میں بھلے ہی امریکی اور افریقی بینکار کے برابر ہو (فرض کریں کہ پاکستان میں یہ تنخواہ ایک لاکھ روپے، امریکا میں ایک لاکھ ڈالر اور افریقی ملک میں ایک لاکھ افریقی ڈالر دی جاتی ہے) لیکن جب حقیقی قدر کی بات کی جائے تو امریکی سب سے زیادہ کماتا ہے۔ امریکا فیڈرل ریزرو کے نوٹ چھاپنے کے فیصلے سے امریکی سے زیادہ پاکستانی یا افریقی شخص متاثر ہوتا ہے لیکن ہم ایسے سسٹم کا حصہ ہیں جس کی وجہ سے روازنہ کرنسی کا جبر پاکستان میں بیٹھے ہر اس عام آدمی کو بھی سہنا پڑتا ہے جو اس معاملے سے بھی لاعلم ہے کہ ڈالر خود ہی ریزرو ہے اور اس کے پیچھے کوئی ریزرو نہیں۔
امریکی اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے جتنے مرضی ڈالر چھاپ سکتے ہیں لیکن اس کی قیمت دنیا بھر کے تمام غریب ممالک ادا کرتے ہیں، حقیقی معنوں میں دنیا بھر میں صرف 4 سے 5 کرنسیاں ہی وجود رکھتی ہیں اور ڈالر سب سے بڑی کرنسی ہے۔ ہمارے قائدِاعظم والے نوٹ کی اصل قیمت بھی صرف ڈالر میں ہے، اگر زیادہ حقیقیت پسندی سے کام لوں تو یہ سینٹ کی پاکستانی شکل ہے۔ اس بات کا بُرا نہ منائیں کیونکہ گاندھی جی ہوں یا شاہ فیصل، سب سینٹ کی مقامی شکلیں ہی ہیں۔
ان حالات میں کیا پاکستان بھی ایل سلواڈور کی طرح کوئی انقلابی فیصلہ کرسکتا ہے؟ تو جواب یقینی طور پر نفی میں ہے۔ کرنسی بھی ایک میتھیائی مرکب ہے اور انسانی تاریخ کا پیچیدہ ترین مسئلہ ہے۔ اس کے حل تک پہنچنے کے لیے پہلے گفتگو کی ضرورت ہے، ایسے ذہن تیار کرنے کی ضرورت ہے جو بلاک جیسے میتھیائی مرکب بنا سکیں اور پھر امریکی سیاست جیسی فراست درکار ہے۔
امریکی سیاسی فراست کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ ڈالر کے خلاف کوئی بھی اقدام امریکی آئین کے مطابق اعلانِ جنگ تصور ہوتا ہے لیکن ان کے اپنے ہی ملک میں اس وقت ڈی سینٹرلائزیشن پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے۔ بلاک، لائٹنگ نیٹ ورک، ایوالنچے وغیرہ اور امریکی سیاستدان خاموشی سے بغیر کوئی فیصلہ کیے اسے دیکھ رہے ہیں تاکہ وقت آنے پر بہتر فیصلہ کیا جاسکے۔ یقیناً جس دن انہیں یقین ہوگیا کہ اب وہ اس معاملے میں مکمل سبقت حاصل کرچکے ہیں تو وہ اسے فوری اپنا لیں گے اور ہم بھی خودبخود اس سے منسلک ہوجائیں گے۔
دنیا کی تمام ریاستوں کے لیے کرنسی سب سے بڑا ہتھیار ہے جہاں مختلف گروہوں کو ریاست کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر بھی کرنسی سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی مدد سے طاقتور ممالک اپنی بات غریب ممالک سے منواتے ہیں لیکن یہ ہتھیار اب کمزور ہو رہا ہے اور اس کے مقابلے میں ڈی سینٹرلائزیشن وارد ہونے کو ہے، جو دورِ جدید کا نیا ہتھیار ہوگا۔
اس سے پہلے کہ پاکستان ہر بار کی طرح نئے نظام کا شکار بنے، ہمیں 'روحونیت' کے ساتھ ساتھ ان موضوعات کا کم از کم مطالعہ تو شروع کردینا ہوگا۔
تبصرے (5) بند ہیں