• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

عدالتیں عمارات گرانے میں مصروف ہیں، سندھ کے بلدیاتی نظام پر بھی نوٹس لیں، خالد مقبول صدیقی

شائع December 1, 2021 اپ ڈیٹ December 2, 2021
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ عدالتیں ہمارے ٹیکس پر چلتی ہیں، ہمارا حق ہے کہ ہم سوال کریں — فوٹو: ڈان نیوز
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ عدالتیں ہمارے ٹیکس پر چلتی ہیں، ہمارا حق ہے کہ ہم سوال کریں — فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیاتی نظام میں اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے، ترقیاتی فنڈز ووٹ خریدنے میں لگائے جارہے ہیں، چیف جسٹس اس پر نوٹس کیوں نہیں لیتے؟

کراچی میں رابطہ کمیٹی کے اراکین کے ہمراہ پریس کانفرنس میں خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ کراچی پورے ملک کو ریونیو فراہم کر رہا ہے اور یہیں کے مکینوں کو بے گھر کیا جارہا ہے۔

انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک شخص کی غلطی کے جرم کی سزا پوری قوم کو دینا چاہتے ہیں۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن صوبے کے تمام اختیارات انہیں دے دیے گئے ہیں، اس حوالے ہم عدالتوں میں بھی گئے لیکن عدالتیں کراچی کی عمارتیں مسمار کرنے میں مصروف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کے شہری حقوق کے لیے آخری حد تک جائیں گے، خالد مقبول صدیقی

انہوں نے کہا کہ عدالتیں پاکستان کے آئین کی نگہبان ہیں، انہوں نے دھیان نہیں دیا کہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 140 ’اے‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سندھ میں بلدیاتی نظام بنایا گیا۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالتیں بھی ٹیکس سے چلتی ہیں اس لیے عام پاکستانی کا حق ہے کہ ان سے سوال کرے، ہم سوال کرتے ہیں کہ آپ کی ٹیبل پر قومی مفاد کے کیسز پڑیں ہیں، آپ ان پر فیصلہ کیوں نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھو دیش کے خواب کو پالنے کی ذمہ داری پیپلز پارٹی نے لی ہے۔

ایم کیو ایم کنوینر نے کہا کہ کراچی میں عباسی ہسپتال، سبراج سمیت دیگر ادارے ایم کیو ایم کے دور میں بلدیاتی اداروں نے بنائے جس پر حکومت سندھ راج کر رہی ہے۔

انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سندھ حکومت کے زبردستی بنائے گئے بلدیاتی نظام پر ازخود نوٹس کب لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ نہیں دیکھ رہے سندھ کو کثیر السانی صوبے سے یک لسانی صوبے میں تبدیل کر کے اس پر ٹوٹا پھوٹا بلدیاتی نظام رائج کردیا گیا ہے، اس پر قوم آپ سے جواب طلب کرے گی۔

مزید پڑھیں: کراچی کو ’اپاہج‘ بلدیاتی نظام دیا گیا، ایم کیو ایم

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کے ملازمین بھی بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں، ہم انہیں لبیک کہتے ہیں۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ مرتضیٰ وہاب کراچی کے بیٹے ہیں انہیں غیر معینہ مدت تک ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا ہے، میں انہیں مشورہ دوں گا کہ جاگیردار حکومت کا آلہ کار بننے سے بچیں۔

اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے کہا کہ حکومت سندھ نے صوبائی اسمبلی میں بل پیش کیا ہے جس کے تحت چیئرمین، میئر یا ڈپٹی میئر کے انتخابات خفیہ بیلٹ پیپرز پر ہوں گے اس پر ایم کیو ایم کی جانب سے تحفظ کا اظہار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی بل میں ایک شق یہ بھی ہے کہ کسی بھی غیر منتخب شخص کو میئر منتخب کیا جاسکتا ہے، سندھ حکومت ترقیاتی منصوبوں کی مد میں ملنے والے فنڈز کے پیسے سے انتخابات خریدنا چاہتی ہے، ہم ایسے نظام کو نہیں مانتے جس میں میئر کے پاس کم سے کم اختیارات ہوں، اس کے خلاف ہم ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائیں گے۔

سابق میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ وہ سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلدیاتی نظام سے متعلق 2017 سے ہماری درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، ریٹائرمنٹ سے قبل اس پر فیصلہ دیں تاکہ کراچی کے لوگوں کا بھلا ہوجائے، جو اقدامات آپ اٹھا رہے ہیں اس سے حکومت سندھ مزید مضبوط ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی حکومتوں کا نیا نظام تجویز کردیا

پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم رہنما کنور نوید جمیل کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اختیارات نچلی سطح تک پہنچانے کے بجائے تمام ادارے اپنے اختیارات میں لے لیے ہیں، گزشتہ 13 سالوں میں کراچی میں سرکاری اسکولوں میں کوئی کام نہیں ہوا نہ ہی کوئی نئے اسکولز یا کلینکس بنیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں غیر قانونی تجاوزات کی اجازت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے دی جو حکومت سندھ کا ادارہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ رہ جانے والے بلدیاتی اداروں کو بھی اپنے اختیار میں لینا چاہتی ہے تاکہ وہاں پر بھی کراچی سے باہر سے آنے والوں کو جعلی ڈومیسائل پر نوکریاں دی جائیں، عدالت اس پر نوٹس لے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024