ہمارے اندر حقائق کو جاننے کی دلچسپی موجود ہے تو یہ بلاشبہ ایک زبردست اور شاندار بات ہے۔ حقائق کو جاننا بالکل اس شطرنج کے کھیل کی طرح ہے، جس کی بساط پر بچھے مہروں میں پُراسراریت اور دلچسپی لبالب بھری ہوتی ہے۔ ہم ہر پل یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگلا مہرا کون سا ہوگا جس کی چال سے موجودہ کھیل کی صورت یکسر بدل جائے گی۔
ہم اگر بازاروں کا رخ کریں تو سیکڑوں بلکہ ہزاروں اقسام کے میوہ جات، اناج اور مصالحوں کے ڈھیر دستیاب ہوں گے۔ مگر گزرے زمانوں کے لوگ شاید اتنے خوش نصیب نہیں تھے جتنے ہم ہیں کیونکہ انہیں اشیا کی اتنی وافر مقدار دستیاب نہیں تھی جتنی آج ہمیں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ مگر ہمیں ان گزرے زمانوں کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ زمانے اگر جستجو کی کشتی نہ کھینچتے تو ہماری زبانوں کو اتنے ذائقے کبھی میسر نہ آتے۔
ہم اگر کراچی سے ٹھٹہ کے لیے نکلیں تو سسئی ٹول پلازہ عبور کرنے پر منظرنامہ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ مرکزی راستے پر اگرچہ گاڑیوں کا دھواں اور ٹریفک کا شور آپ کو ناگوار گزرتا ہے مگر دونوں اطراف نیم کے پیڑ اور دیوی کے درخت دیکھنے کو ملتے ہیں، کہیں کہیں کوئی چھوٹی آبادی بھی نظر سے گزرتی جاتی ہے۔
یوں سمجھیے کہ یہ راستہ ایک لکیر کی مانند ہے جس کے شمال کا لینڈ اسکیپ الگ اور راستے کے جنوب کا لینڈ اسکیپ بالکل الگ ہے۔ اگر راستے کے جنوبی بیلٹ میں کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے مقررہ مقدار میں پانی کا بہاؤ ہوتا تو وہاں کا منظرنامہ بالکل الگ ہوتا اور ہم اُسے ایکٹِو ڈیلٹا کہتے۔ اب چونکہ دریا کا پانی اس ڈیلٹائی پٹی تک نہیں آ رہا لہٰذا اب ہم اس حالت میں اسے ایکٹِو ڈیلٹا نہیں پکار سکتے اور لینڈ اسکیپ میں تبدیلی کی یہی وجہ ہے۔ کسی اور نشست میں اس ’ایکٹِو‘ اور ’اِن ایکٹِو‘ ڈیلٹائی عمل پر بات ضرور کریں گے۔
راستے کے شمال میں کیرتھر پہاڑی سلسلہ تقریباً اپنے اختتام کو آ پہنچتا ہے جس کی وجہ سے اس طرف کی اپنی ایک الگ ماحولیاتی حیات پائی جاتی ہے۔ جنوب کا لینڈ اسکیپ شمال سے بالکل مختلف ہے۔ چھوٹی چھوٹی جھیلیں ہیں، دھان، ناریل، پان اور کیلے کی فصلیں جابجا نظر آجاتی ہیں۔ ساحلی علاقے کے رنگ بھی نمایاں ہوجاتے ہیں۔ ساحل کی کھاڑیوں پر قدیم اور جدید گھاٹ موجود ہیں۔ ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی سمندری کشتیاں بھی نظر آجاتی ہیں۔ یہاں کا رہن سہن اور زبان کا لہجہ بدین، جاتی اور سجاول سے کچھ الگ ہے۔
اگر آپ جزیروں پر آباد ماہی گیروں کی بستیوں کا رخ کریں تو وہاں مقامی افراد کے بولنے کا انداز یکسر مختلف پائیں گے، وہ جب بات کریں گے تو جملے کے اختتامی الفاظ ایک تان کی صورت لے کر ختم ہوں گے۔ بالکل ایسے جیسے گہرے سمندر کی لہر ایک سُر سے دھیرے سے اٹھتی ہے اور پھر دھیرے سے نیچے جاکر دوسری لہر کو جنم دیتی ہے۔ چونکہ زبان کے لہجوں پر اطراف میں پھیلے ہوئے مناظر اور آوازوں کا اثر ہوتا ہے اس لیے یہ حیران کردینے والی بات بھی نہیں ہے، اس لیے یہ سوال کرنا بیکار ہے کہ جزیروں پر رہنے والوں کی زبان میں یہ سُر کہاں سے آیا؟
ہم نے جب کراچی چھوڑا تو سورج نے دن سے دوپہر چھین لی اور دن کے ڈھلنے کی پہلی نشانی ظاہر ہوچکی تھی۔ ہم نے گھارو سے پہلے ایک چھپرا ہوٹل میں دوپہر کی خوراک کے لیے تندور کی گرم گرم روٹی شکم کے حوالے کی اور میٹھی اور گاڑھی چائے کی چسکیوں کے ساتھ کھانے کا وقفہ تمام کیا۔
گھارو کے مشرق میں گھارو کریک پار کرکے جب ہم جنوب کی طرف مڑے اور این-110 پر اپنا سفر شروع کیا تو سورج کے ڈھلنے میں 2 گھنٹے رہ گئے تھے۔ یہ راستہ کچھ برس پہلے ہی بنا تھا اور چند برس پہلے تک اچھا بھی تھا۔ مگر اب تو جیسے اچھائی نے اس راستے سے منہ ہی موڑ لیا ہے سو اب یہ فقط ایک راستہ ہی رہ گیا ہے۔ 10 سے 12 فٹ اونچے روڈ سے نظر آنے والے دھان کے کھیتوں میں کچھ فصلیں کٹ چکی تھیں اور کچھ کٹ رہی تھیں۔ کہیں کہیں تھریشر تھا جو اپنے منہ سے گھاس کو فضا میں اُچھالتا تھا۔ دونوں کناروں پر مرغیوں اور پانوں کے فارم موجود تھے۔ گھارو سے جنوب کی طرف آپ جب نکلتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ دریائے سندھ کا سمندر سے ملنے کا یہ پرانا راستہ ہے، اس لیے چاروں طرف نہروں کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے۔ کبھی یہ میٹھے پانی کو لے کر سمندر میں جاتی تھیں، مگر اب دریا میں پانی نہیں اس لیے سمندر کے شوریدہ پانیوں نے ان میں اپنے راستے بنا لیے ہیں۔
جیسے جیسے جاڑوں کا سورج ڈھل رہا تھا، ایک ہلکی دھند کی لکیر زمینوں اور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کے اوپر بنتی جا رہی تھی۔ چھوٹی چھوٹی جھیلیں جو برساتی اور زرعی زمینوں میں استعمال شدہ پانیوں کی وجہ سے بن جاتی ہیں، ان میں مقامی پرندے بڑی شان سے چلتے ہیں۔ ٹھنڈ کی وجہ سے پانی کسی آئینے کی طرح بچھا ہوا نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ پرندے زمین پر بچھے کسی آئینے پر چہل قدمی کر رہے ہیں۔ جاڑوں میں ایسے کئی مناظر ہیں جو ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔
ہم میرپور ساکرو، بھارا اور گاڑھو سے آگے بگھان پہنچے تو سورج نے کل آنے کے وعدے کے ساتھ الوداع کہا اور شام کی سرخی آسمان پر کسی گلابی آنچل کی طرح بچھ گئی۔ ہم بگھاں سے 'جھالو' پہنچے، جہاں گلاب شاہ صاحب ہمارے منتظر تھے۔ رات کی تاریکی نے بسیرہ کرلیا تھا۔ گاڑی سے باہر ٹھنڈ تھی اور جھالو سے مغرب میں کیٹی بندر 15 کلومیٹر اور مشرق جنوب میں جنگیسر 7 کلومیٹر دُور تھا۔ لذیذ عشائیے کے بعد گفتگو اور مباحثوں کا دور شروع ہوا۔ بات پانی کی موجودہ کمی سے شروع ہوئی جو صدیوں کی پگڈنڈیوں سے سفر کرتی، سمندر کی بندرگاہوں اور گھاٹوں سے ہوتی ہوئی نہ جانے کیسے 'کیلے' تک آ پہنچی۔
ہم اگر سندھو گھاٹی کے ابتدائی زمانوں میں دستیاب خوراک کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تو ہمیں: گندم اور جو کے علاوہ کھجور کی نشانیاں ملی ہیں مگر کیلے کے شواہد نہیں ملے۔ ممکن ہے کہ کیلے کی پیداوار ہوتی ہو مگر اس حوالے سے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے۔
ہملٹن 1696ء میں یہاں کے انار، کھجور، تربوز کے ساتھ کیوڑے کا ذکر کرتے ہیں (کیوڑے دراصل وہ مقامی سندھی کیلا ہے جس کو آج G9 پکارا جاتا ہے، ماضی میں مقامی لوگ اسے 'کیوڑہ' کہتے تھے۔ جب بمبئی کا کیلا یہاں آیا تو لوگ اسے 'کیلا' بلانے لگے، چنانچہ کیوڑہ، مقامی سندھی کیلا ہے اور کیلا بمبئی سے آیا ہوا کیلا)۔ مگر 10ویں صدی میں یہاں آنے والے ابن حوقل گنّا، نیبو، آم، کھجور اور چاول کی فراوانی کا ذکر تو کرتے ہیں مگر کیلے یا کیوڑے سے متعلق کوئی بات نہیں لکھی۔
سراج شمس 'تاریخ فیروز شاہی' اور علامہ ابوالفضل 'آئین اکبری' میں آموں اور چاول کی بہتات کی بات تو کرتے ہیں مگر کیلے کا نام نہیں لیتے۔ مگر اس کا یہ مطلب اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ کیلا یہاں تھا ہی نہیں۔ تھا مگر بہت ہی کم۔ شاید اسی وجہ سے توجہ حاصل نہ کرسکا۔
جب گوری سرکار 1843ء میں سندھ پر قابض ہوئی تو اس وقت تقریباً 12 لاکھ ایکڑ اراضی ذرخیز تھی۔ 1885ء میں آباد فصلوں کے حوالے سے ہونے والے پہلے سروے کے مطابق 14 لاکھ 70 ہزار ایکڑ اراضی قابلِ کاشت تھی جبکہ 1924ء میں بمبئی زرعی ڈائریکٹوریٹ پونا کے زرعی سروے کے مطابق ان دنوں سندھ میں، فصلوں، سبزیوں، میوؤں کے باغات اور جنگلات 47 لاکھ ایکڑ پر مشتمل تھے۔ یہاں باغات میں جو پھل اُگتے تھے ان میں بے چارے کیلے کا ذکر نہیں ملتا۔
'ہم اب اس کو سندھی کیلا بولتے ہیں، مگر پہلے ہم اس کو کیوڑا بولتے تھے۔ اس کے درخت اب بھی آپ کو کہیں کہیں مل جائیں گے مگر وہ اتنا میٹھا نہیں ہوتا، چار سے پانچ انچ کا ہوتا ہے اور گول نہیں ہوتا تکونہ ہوتا ہے'، یہ بات 65 سالہ محترم عثمان شاہ نے مجھے بتائی۔ ان کی اپنی زمینیں ہے اور زراعت پر ان کو بہت ساری معلومات اور تجربہ ہے۔
گفتگو میں ایک طرف سے سوال کیا گیا کہ 'تو آج کل بازار میں جو شیریں اور خوشبودار کیلا دستیاب ہے وہ کہاں سے آیا؟'
عثمان شاہ نے جواب دیا کہ 'یہ بمبئی سے آیا تھا اور جہاں ابھی ہم بیٹھے ہیں یہاں سے 5 یا 7 کلومیٹر دُور مشرق میں جنگیسر گھاٹ ہے وہاں اس کا بیج آکر اُترا تھا۔ شاید یہ بٹوارے کے بعد کی بات ہے۔ اُن دنوں کشتیوں کا آنا جانا جاری تھا۔ یہاں کے زمیندار حاجی خان کلہوڑو نے بمبئی کے کیلے کی مٹھاس اور ذائقے کے پیش نظر وہاں سے کیلے کا بیج منگوایا اور پھر یہاں سب سے پہلے بمبئی کے کیلے کی کاشت کا آغاز ہوگیا'۔
میں حیران تھا کہ کیلے کی پیداوار کے لحاظ سے مشہور زیریں سندھ کہ جہاں لاکھوں ایکڑ کی اراضی پر محیط کیلے کے باغات ہیں، وہاں کیلے کا پہلا بیج 60، 70 برس قبل دریائے سندھ کے اس جنگیسر گھاٹ پر اترا تھا۔ باہر ٹھنڈ تھی اور سیار حسبِ عادت رونے کی آوازیں نکال رہے تھے۔ پہلے کوئی ایک سیار روتا، پھر دھیرے دھیرے پورے کا پورا جھنڈ رونا شروع کردیتا۔ چہار سو خاموشی ہو، سردی ہو، آپ گاؤں کی کسی اوطاق پر مہمان ہوں، اور گاؤں کے چاروں طرف جنگل اور کھیت ہوں۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کے یہ کتنا خوبصورت ہے۔ کچہری کے بعد میں جب لیٹا۔ تو مجھے صبح ہونے کی جلدی تھی کہ اطراف کا ماحول دیکھ سکوں اور اس گھاٹ کو دیکھ سکوں کہ جہاں 60، 7 سال پہلے ایک کشتی جو بمبئی سے نکلی تھی اور کتنا فاصلہ سمندر کی سطح پر طے کرکے، دریائے سندھ کے میٹھے پانی کے بہاؤ پر بہتی ہوئی وہاں پہنچی تھی۔
صبح کو جب میری آنکھ کھلی تو ہلکی سفیدی تھی اور تیتروں کی بولیاں سننے کو ملتی تھی۔ میرے سامنے ناریل کے درخت تھے۔ پھر تھوڑا دُور کیلے کا باغ تھا۔ پان کے فارم تھے۔ مرچوں اور ٹماٹروں کے کھیت تھے۔ مغرب میں پانی کی ایک چھوٹی سی جھیل تھی جس پر بگلے و دیگر پرندے اتراتے ہوئے اترتے اور پھر محو پرواز ہوجاتے، شمال کی بہتی ہوا وقفے وقفے سے ان کی بولیوں کی آوازیں مجھ تک پہنچاتی۔
ہم جب جنگیسر کی طرف روانہ ہوئے اس وقت دن کا ابتدائی پہر تھا، ناریل کے قدآور درخت تھے جو جاڑوں کے نیلے آسمان کی وجہ سے انتہائی خوبصورت لگتے تھے۔ دھان کی کچھ فصلیں کٹ چکی تھیں اور کچھ کٹائی کے مرحلے سے گزر رہی تھیں۔ کچھ مرد اور عورتیں دھان کی فصل کو درانتی سے کاٹتے تھے۔ شمال کی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ پکی ہوئی دھان کی خوشبو کا ریلا آتا اور گاڑی کو مہکا جاتا اور ہمارے پھیپھڑے اس مہک سے بھر جاتے۔ کھیتوں سے آگے تاحدِ نگاہ خودرو جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں اور ہم ان میں سے بنے وقتی راستے سے گزر رہے تھے۔
'یہ ایک زمانے میں بڑی زبردست جھیل تھی۔ 10 یا 15 برس پہلے جاڑوں کے دنوں میں یہاں پرندوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ پانی ہی سے فطرت کے سارے رنگ ہوتے ہیں۔ اب تو یہاں فصلوں کے لیے پانی نایاب ہے۔ ہاں البتہ بارشیں زیادہ پڑجائیں تو پھر 7 سے 8 ماہ تک یہاں پانی کھڑا رہتا ہے اور یہ جھیل پرندوں کو اپنے پاس بلا لیتی ہے'، گلاب شاہ نے جھیل کی ساری درد کہانی ایک جملے میں گوندھ دی اور ہم ایک برائے نام جھیل سے گزر رہے تھے جس میں پانی نہیں تھا۔
میں نے اس علاقے کی تاریخ پر کام کرنے والے محترم حافظ حبیب سندھی سے جنگیسر گھاٹ کے ماضی اور حال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ 'جنگیسر دراصل ایک ہندو زمیندار تھا۔ چونکہ کیٹی بندر، کھارو چھان اور شاہ بندر میں بھی اس کی زمینیں تھیں اس لیے وہاں تک آمد و رفت اور زمینوں سے چاول لانے کے لیے اس نے یہ گھاٹ بنوایا تھا۔ اس زمانے میں یہ دریائے سندھ کے میٹھے پانی پر بنا ایک شاندار گھاٹ تھا۔ دھانداری اور بگھان نامی چھوٹے چھوٹے شہر اسی بندر کی وجہ سے آباد ہوئے۔ چونکہ اس زمانے میں کَچھ، کاٹھیاواڑ، سورت اور بمبئی سے سمندری راستوں کے ذریعے بیوپار اور آمدو رفت کا سلسلہ قائم تھا اس لیے سمندری کناروں پر بندر جبکہ دریائے سندھ کے بہاؤ پر گھاٹ موجود تھے'۔
ماضی میں بیوپار دریا کے بہاؤ پر ہی ہوتا تھا لہٰذا ان وقتوں میں جو بھی بستیاں اور شہر آباد تھے وہاں گھاٹوں کا بننا ضروری تھا۔ رسول بخش تمیمی اپنی ایک تحریر میں ٹھٹہ کے ان متعدد گھاٹوں کا ذکر کرتے ہیں جو سرکاری ریکارڈ میں رجسٹرڈ تھے، ان میں سنہڑی، ونگائی، سوکھی، کاک فرید، خچر، بچو کیہر، جادی واری، کھاروچھان، جوگیئڑا، دارسی، سجن واری، آتھرکی، دھرمومل، پالکی، بابیہو، موسیٰ وارو، جنگیسر، باگاتا، دھانداری، جلبانی، پنیو شورو، بُڈھانی، اُڈیرو لال، ڈنو شاہ، گھوڑا باری، پارہیڑی، سانولپور، گاھی وارو، بچل پاتنی، اُپلانا، گُلیل، مٹھارا، درویش، سیدپور، ٹھٹہ، بیلو، چھتو چنڈ، سورجا، سونڈا، ڈاڈو، جھرک، مولچند وغیرہ شامل ہیں۔
جنگیسر گھاٹ یقیناً ابھی تک ایک شاندار اور خوبصورت گھاٹ ہے۔ جیٹی بنی ہوئی ہے جس کے نیچے ماہی گیر نئے جال بُنتے ہیں اور پرانے جالوں کو نیا کرتے ہیں۔ جیٹی سے دریائے سندھ کا قدیم بہاؤ حرف 'ں' جیسا نظر آتا ہے۔ بالکل ایک بڑی آدھی گول لکیر کی طرح۔ دُور سے آتا یہ بھاؤ جیسے جنگیسر گھاٹ کو سلام کرکے تیزی سے مُڑتا دُور نکل جاتا ہے۔ کچھ کشیتاں کھڑی ہیں، کچھ جا رہی ہیں، کچھ آرہی ہیں۔ جو کشتیاں کھڑی ہیں ان پر دوپہر کا کھانا بن رہا ہے اور مچھلی کے سالن کی خوشبو مجھ تک پہنچنے کے بعد دوستوں تک بھی پھیل جاتی ہے۔ وہ خوشبو کو محسوس کرکے پہلے مجھے دیکھتے ہیں پھر اس کشتی کو جہاں سالن پک رہا ہے کہ وہاں سے لکڑیوں کا ہلکا سا دھواں اُٹھ رہا ہے۔ ماہی گیروں سے لذیذ مچھلی اور کوئی نہیں بنا سکتا۔
کنارے پر جیٹی کے قریب ناریل کے درختوں کا جُھنڈ ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے سندباد سیلانی کی کہانی کا کوئی منظر ہو۔ تو یہ وہ جگہ تھی جہاں 70 برس پہلے بمبئی کے کیلے کے بیج اترے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کچھ برسوں میں یہ انڈس ڈیلٹا کیلے کے بڑے پتوں اور تیز ہرے رنگ سے بھر گیا کہ کیلے کی پیداوار کے لیے ساحلی پٹی کا موسم بہت موزوں رہتا ہے۔
اس بارے میں جب سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے محمد اسماعیل کنبھر سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ، 'بنیادی طور پر کیلے کی فصل کو 'ڈیلٹا کراپ' ہی کہا جاتا ہے کہ یہ نہ زیادہ ٹھنڈ اور نہ زیادہ گرمی برداشت کرسکتا ہے۔ کیلا سردی 10 سے 11 اور گرمی 42 سینٹی گریڈ تک برداشت کرسکتا ہے۔ چنانچہ جس نے بھی آج سے 70 برس پہلے کیلے کو اگانے کا سوچا اس نے اچھا ہی سوچا۔ دنیا میں کیلے کی کُل 9 اقسام ہیں۔ اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ کیلے کی پیداوار بھارت میں ہوتی ہے'۔
'کیا دریائے سندھ کا یہ بہاؤ ابھی تک بہتا ہے؟، ہم نے پوچھا۔
'نہیں یہ بہاؤ اگست 1988ء کی برساتوں میں ختم ہوگیا تھا۔ اب یہ خلیج بن گئی ہے۔ اس میں سمندر کا پانی بھر گیا ہے۔ ہاں البتہ زیادہ بارشیں پڑ جائیں یا سیلاب آجائے تو ممکن ہے کہ دریا اپنا پرانا راستہ ڈھونڈ لے ورنہ اکثر یہ ہوا ہے کہ دریا جہاں جہاں سے روٹھتا ہے وہاں پھر کبھی نہیں لوٹتا'، میرے سوال کے جواب میں گلاب شاہ نے کہا۔
جہاں کسی زمانے میں سارا برس میٹھا پانی بہتا تھا وہاں اب سمندر کا نمکین پانی رہتا ہے۔ اب یہاں کوئی کشتی نہ چاول لے آتی ہے نہ کوئی اور سامان، بس ماہی گروں کی کشتیاں ہیں جو سمندر میں جاکر مچھلی کا شکار کرتی ہیں اور لوٹ آتی ہیں۔ ماہی گیر سارا برس اپنے گزرتے دنوں کی طرح دریدہ جالوں کو بُن کر نیا کرتے ہیں اور اسی طرح زندگی کے شب و روز گزارتے ہیں۔
ان کی حیات میں یہ پریشانی نہیں ہے کہ مارکیٹ میں کس جنریشن کا نیا لیپ ٹاپ آنا ہے یا گلیکسی کا جو نیا سیل فون آرہا ہے اس میں نئے فیچرز کون سے ہیں۔ یا یہ بھی ان کی پریشانی نہیں ہے کہ نیٹ کی ڈاؤن لوڈ اسپیڈ کتنی ایم بی کی ہے کیونکہ یہ پیسوں سے ممکن بنائے جانے والے شوق ہیں جو ان کے پاس نہیں ہیں۔
ان کا مسئلہ یہ ہے کہ دریا میں میٹھا پانی سارا برس کیوں نہیں آتا؟ کیونکہ اس کے نہ آنے کی وجہ سے سمندر روز بروز آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک زمانے میں سونا اُگلنے والی زمینوں میں اب نمک کی قلمیں پھوٹتی ہیں۔ ان کی پریشانی یہ ہے کہ اگر دریا میں ایسے ہی ریت اُڑتی رہی تو ان کی آنے والی نسلوں کا کیا ہوگا؟ نام نہاد سرمایہ داری کی وجہ سے زمینیں روز بروز سکڑتی جا رہی ہیں کہ جب زمین پر فارم بنے ہوں گے اور سمندر آگے بڑھ رہا ہوگا تو آنے والے کچھ برسوں کے بعد یہاں کا منظرنامہ کیا ہوگا!
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں