فہد مصطفیٰ کی فلموں پر تبصرہ لکھنے والے افراد سے درخواست
اداکار، میزبان اور پروڈیوسر فہد مصطفیٰ نے فلموں پر تبصرہ لکھنے اور کرنے والے لکھاریوں اور خصوصی طور پر بلاگرز سے اپیل کی ہے کہ وہ موویز پر ریوز نہ لکھیں۔
اداکار و پروڈیوسر نے انسٹاگرام پر کی گئی پوسٹ میں بلاگرز کو مودبانہ گذارش کی کہ وہ فلم ضرور دیکھیں مگر اس پر فوری طور پر تبصرہ نہ لکھیں۔
انہوں نے لکھا کہ فلموں کو دیکھنے والے بلاگرز کے اچھے یا برے تبصرے کسی بھی طرح سینما انڈسٹری کی مدد نہیں کر رہے، اس لیے وہ فوری طور پر ایسے تبصرے نہ لکھیں۔
فہد مطفیٰ نے بلاگرز کو مشورہ دیا کہ وہ لوگوں کو ان کی مرضی کے مطابق سینما میں جاکر فلم دیکھنے دیں، ان کا تبصرہ تو بعد میں دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
پروڈیوسر و اداکار نے بلاگرز کے لیے لکھا کہ ان کا تبصرہ کس طرح کا بھی ہو وہ فلم کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ کسی طرح بھی سینما انڈسٹری کی مدد نہیں کر رہے۔
فہد مصطفیٰ نے لکھا کہ سینما انڈسٹری کو بلاگرز کے ساتھ کی ضرورت ہے، انہیں فلموں پر فوری تبصرہ نہیں لکھنا چاہیے اور لوگوں کو پہلے فلم دیکھنے دیں۔
انہوں نے مذکورہ پوسٹ کے کیپشن میں ہاتھ باندھنے کا ایموجی استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ فلم انڈسٹری کو مدد کی ضرورت ہے۔
فہد مصطفیٰ کی جانب سے پوسٹ کیے بعد کئی شوبز شخصیات نے ان سے اتفاق کیا اور لکھا کہ بلاگرز فلموں پر تبصرے نہ لکھیں اور شائقین کو فلم کی کہانی سے متعلق خود فیصلہ کرنے دیں۔
یہ بھی پڑھیں: دو سال بعد پہلی پاکستانی فلم ’کھیل کھیل میں‘ ریلیز
فہد مصطفیٰ نے مذکورہ پوسٹ ایک ایسے وقت میں کی ہے جب کہ ملک بھر میں حال ہی میں تقریبا 2 سال بعد سینما کھلے ہیں، پاکستان بھر میں مارچ 2020 میں کورونا کے پیش نظر سینما بند کردیے گئے تھے۔
ملک میں تقریبا دو سال بعد 19 نومبر کو پہلی پاکستانی فلم ’کھیل کھیل میں‘ کو سینماؤں میں ریلیز کیا گیا تھا، جس کی کہانی ‘سقوط ڈھاکا‘ کے گرد گھومتی ہے اور اسے کافی سراہا جا رہا ہے۔
تاہم دو سال تک سینما بند رہنے کے بعد اب سینماؤں میں ماضی جیسا رش نہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ بعض لوگ ’کھیل کھیل میں‘ پر بلاگرز کی جانب سے منفی تبصرے لکھے جانے کی وجہ سے بھی سینماؤں کا رخ نہیں کر رہے۔
’کھیل کھیل میں‘ کی ہدایات نبیل قریشی نے دی ہیں اور اسے فضا علی میرزا نے پروڈیوس کیا ہے جب کہ سجل علی اور بلال عباس سمیت علی ظفر، شہریار منور اور جاوید شیخ، منظر صہبائی اور ثمینہ احمد سمیت دیگر اداکاروں نے کردار ادا کیے ہیں۔
فلم کی کہانی ’سقوط ڈھاکا‘ کے پس منظر کے گرد گھومتی ہے، فلم میں یونیورسٹی کے کچھ طلبہ سقوط ڈھاکا پر تھیٹر پیش کرکے بعض حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں، جس پر انہیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
فلم میں پاکستان ٹوٹنے اور بنگلادیش بننے کے واقعات کو فکشنل انداز میں دکھایا گیا ہے جب کہ ڈھاکا میں پھنس کر رہ جانے والے پاکستانیوں کی حالت زار بھی دکھائی گئی ہے۔