کورونا ویکسین اور سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں انسانیت کی توہین
'ہم سرمایہ دارانہ نظام اور لالچ کی وجہ سے (اتنی جلدی) ویکسین بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں میرے دوستو!' یہ کہتے ہی برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے کہنے لگے، 'لیکن مجھے اس پر افسوس ہے۔ آپ لوگ بھی بھول جائیے کہ میں نے ایسا کچھ کہا تھا'۔
یہ مکالمہ 23 مارچ 2021ء کے روز برطانوی مقننہ کے نمائندگان سے بورس جانسن کی ایک نجی گفتگو میں ہوا جو اگلے روز عالمی میڈیا میں خبر بن گیا۔
بے دھیانی میں ہی سہی لیکن بورس جانسن کی زبان سے جدید دور کا ایک کڑوا سچ برآمد ہوچکا تھا اور اسی 'سچ' کے اثرات آج 'ویکسین سرمایہ داری' (ویکسین کیپٹل اِزم) کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ (قدرے آسان الفاظ میں ویکسین کیپٹل اِزم کا مطلب 'ویکسین کی عالمی فروخت سے سرمایہ داروں کی بے اندازہ منافع خوری' لیا جاسکتا ہے)۔
یقین نہ آئے تو کورونا ویکسینیشن کے عالمی اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیجیے۔
ایک طرف امیر اور مالی طور پر مستحکم ممالک ہیں جہاں عوام کی غالب اکثریت کو کورونا ویکسین مکمل طور پر لگائی جاچکی ہے لیکن پھر بھی وہاں 'بوسٹر ڈوز' کے نام پر ویکسین کی ایک اور اضافی خوراک (ڈوز) لگانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔
اس کے برعکس، دوسری جانب وہ غریب ممالک ہیں جہاں اب تک صحیح معنوں میں کورونا ویکسینیشن کا آغاز ہی نہیں ہوسکا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایک حالیہ بلاگ میں بتایا گیا ہے کہ غریب افریقی ممالک میں (جو صحرائے صحارا کے جنوب میں واقع ہیں) صرف 4 فیصد افراد کی ویکسینیشن ہوسکی ہے۔
غیر منصفانہ تقسیم
ایک بار پھر، ہمارا سامنا وسائل کی قلت سے نہیں بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کئی بار امیر ممالک سے درخواست کرچکا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو کورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگانے کا عمل 2022ء تک مؤخر کردیں اور ویکسین کی اضافی خوراکیں پسماندہ ممالک کو عطیہ کردیں تاکہ وہاں بھی عوام کو تیزی سے ویکسین لگا کر اس عالمی وبا (کورونا) سے محفوظ کیا جاسکے۔ تکنیکی اور اصولی طور پر یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ اس عالمگیر وبا میں 'جب تک ہر کوئی محفوظ نہیں، تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں!'
مگر یوں لگتا ہے جیسے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کو دنیا سے زیادہ 'اپنے' نجی اداروں کے مفادات عزیز ہیں۔ جی ہاں! یہ وہی نجی ادارے ہیں جنہوں نے اپنی اپنی حکومتوں کی فنڈنگ سے کورونا ویکسین تیار کی اور بڑے پیمانے پر اس کی آزمائشیں بھی کیں، لیکن جب ویکسین فروخت کرنے کا وقت آیا تو اپنے 'سالانہ مالیاتی اہداف' کو مدِنظر رکھتے ہوئے من مانی قیمت مقرر کردی۔ اس پر بھی بس نہیں چلا تو 'بوسٹر ڈوز' کا شوشہ چھوڑ دیا تاکہ اور زیادہ ویکسین فروخت کرکے خوب منافعے کو 'خوب تر منافعے' میں تبدیل کیا جاسکے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جب ویکسینیشن مکمل ہونے کے بعد لوگ کورونا وائرس سے محفوظ بنا دیے گئے ہیں تو پھر ویکسین کی ایک اور خوراک لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے جواب میں ان اداروں کی جانب سے 'سائنسی شہادتوں کے ساتھ' یہ دلیل پیش کی گئی کہ اضافی خوراک کی بدولت یہ تحفظ 'مزید یقینی' ہوجائے گا۔ ہرچند کہ ماہرین ان شہادتوں کو کمزور قرار دے چکے تھے لیکن پھر بھی حکومتوں نے بوسٹر ڈوز کی منظوری دے دی۔
امریکا کی بات کریں تو وہاں فائزر اور موڈرنا کی کورونا ویکسینز زیادہ استعمال ہورہی ہیں۔ امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے بھی پہلے پہل بوسٹر ڈوز کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا لیکن دھیرے دھیرے انہیں 'عقل' آنے لگی۔ پہلے تو بوسٹر ڈوز کی منظوری 65 سال یا زیادہ عمر کے بزرگوں اور 18 سے 64 سال کے ناتواں افراد کے لیے دی گئی لیکن کچھ ہفتے بعد تمام بالغ امریکیوں کے لیے کورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز منظور کرلی گئی۔ حیرت انگیز طور پر یہ منظوری صرف اور صرف فائزر اور موڈرنا کی تیار کردہ کورونا ویکسینز کے لیے ہی تھی۔
اس طرح سے بوسٹر ڈوز منظور کرنے کے پسِ پشت کون سی 'مضبوط سائنس' کارفرما ہے؟ اس سوال کا جواب ہنوز پردۂ راز میں ہے۔ نہ جانے وہ راز کیا ہے اور کب سامنے آئے گا؟
البتہ اب تک اتنا ضرور معلوم ہوچکا ہے کہ دنیا کی بڑی ادویہ ساز کمپنیاں اس سال کے اختتام تک صرف کورونا ویکسین کی عالمی فروخت سے کم از کم 115 ارب ڈالر کمالیں گی جبکہ 'موزوں ترین حالات' میں یہ ہندسہ 190 ارب ڈالر تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
فائزر نے ہدف مقرر کیا ہے کہ وہ اس سال کے اختتام تک (صرف کورونا کی بین الاقوامی فروخت سے) 26 ارب ڈالر منافع کمائے گی۔ اگر آمدن کے اعتبار سے بات کریں تو فائزر اور موڈرنا کو اپنی کورونا ویکسینز کی فروخت سے بالترتیب 44 ارب ڈالر اور 32 ارب ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔
لیکن یہ تو ایک بڑے انسانی المیے کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔ ہم جیسے جیسے حقائق کو کھنگالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، ویسے ویسے ایک تکلیف دہ صورتحال ہمیں اپنی منتظر ملتی ہے۔
'جرنل آف دی رائل سوسائٹی آف میڈیسن' میں شائع ہونے والے ایک تازہ تحقیقی مقالے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا اور یورپ کی بڑی ادویہ ساز کمپنیوں نے اب تک یہ نہیں بتایا ہے کہ کورونا ویکسین کی تیاری پر ان کی کتنی لاگت آرہی ہے۔ (یاد دلاتا چلوں کہ کورونا ویکسینز پر تحقیق سے لے کر کلینیکل ٹرائلز تک، ہر مرحلے پر ساری رقم حکومتوں کی جانب سے خرچ کی گئی ہے یعنی کہ نجی ادویہ ساز کمپنیوں پر ان اخراجات کا کوئی بوجھ نہیں پڑا)۔
مقالے کے مصنفین نے مستند حوالوں سے بتایا ہے کہ ہر طرح کے اخراجات شامل کرنے کے بعد فائزر کورونا ویکسین پر 1.18 ڈالر فی خوراک جبکہ موڈرنا ویکسین پر 2.85 ڈالر فی خوراک لاگت آئی ہوگی لیکن یہ کمپنیاں ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کو 14.7 ڈالر سے 25.50 ڈالر فی خوراک کی شرح سے کورونا ویکسینز فروخت کررہی ہیں۔
منافع خوری کا عذاب، غریب ممالک کہاں جائیں؟
مقالے کے مصنفین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کورونا ویکسینز اپنی درست اور جائز قیمتوں پر فروخت نہ کی گئیں تو غریب اور کم آمدنی والے ممالک میں ویکسینیشن کا عمل سست رفتار رہے گا اور اس عالمی وبا کے خاتمے میں بہت دیر ہوجائے گی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کورونا ویکسینز کی زیادہ قیمت پر کوئی اعتراض کیا گیا ہے۔ مختلف عالمی ادارے بہت پہلے سے اس ناجائز منافع خوری کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔
مثلاً غربت اور سماجی عدم مساوات کے خلاف کام کرنے والی عالمی تنظیم 'آکسفیم انٹرنیشنل' نے جولائی میں اپنی ایک پریس ریلیز میں خبردار کیا تھا کہ ادویہ ساز کمپنیاں غریب ممالک کو مفت کورونا ویکسین فراہم کرنے سے متعلق عالمی پروگرام 'کوویکس' تک کو اپنی کورونا ویکسینز 'جائز قیمت' کے مقابلے میں کم از کم 5 گنا مہنگے داموں پر فروخت کر رہی ہیں۔ (پریس ریلیز میں فائزر اور موڈرنا ویکسینز کی لاگت کا تخمینہ 1.2 ڈالر فی خوراک لگایا گیا ہے)۔ اسی ریلیز میں مزید یہ بھی لکھا ہے کہ فائزر اور موڈرنا نے اپنی کورونا ویکسینز کا 90 فیصد حصہ امیر ممالک کو فروخت کیا ہے اور ان سے بھی جائز قیمت کے مقابلے میں 24 گنا زیادہ قیمت وصول کی گئی ہے۔
آکسفیم کی ہیلتھ پالیسی منیجر اینا میریئٹ کے بقول 'ادویہ ساز کمپنیاں ایک غیر معمولی عالمی بحران میں ساری دنیا سے تاوان وصول کررہی ہیں۔ شاید یہ انسانی تاریخ میں منافع خوری کے مہلک ترین واقعات میں سے ایک ہے'۔
اسی تسلسل میں 16 نومبر 2021ء کی ایک اور پریس ریلیز میں آکسفیم نے ترقی یافتہ اور امیر ملکوں کی حکومتوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ادویہ ساز کمپنیوں کی من مانی اور بے لگام منافع خوری پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں جبکہ 3 بڑی عالمی ادویہ ساز کمپنیاں (فائزر، بایو این ٹیک اور موڈرنا) صرف کورونا ویکسین کی فروخت سے ہر ایک منٹ میں 65 ہزار ڈالر کما رہی ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر ایک دن میں 9 کروڑ 36 لاکھ ڈالر اور ہر ایک مہینے میں 2 ارب 80 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ان بڑی ادویہ ساز کمپنیوں کی جیبوں میں منتقل ہورہے ہیں!
انسانی تاریخ کے بدترین عالمی بحران کا ذمہ دار کون؟
ایمنٹسی انٹرنیشنل نے بھی اپنی تفصیلی رپورٹ 'اے ڈبل ڈوز آف اِن ایکویلیٹی' (عدم مساوات کی دوہری خوراک) میں دنیا کی بڑی ادویہ ساز کمپنیوں کو انسانی تاریخ کے بدترین عالمی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اس مسئلے کے ایک اور تشویشناک پہلو کا تعلق ناول کورونا وائرس (سارس کوو 2 - SARS-CoV-2) سے ہے، جس کی وجہ سے حالیہ عالمی وبا (کورونا) پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ایک آر این اے وائرس ہے، یعنی ایسا وائرس کہ جس کا جینوم (جین کا مجموعہ) آر این اے کہلانے والے سالمات (مالیکیولز) پر مشتمل ہوتا ہے۔
کسی بھی دوسرے وائرس کی طرح یہ بھی اپنے شکار پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کے جسمانی خلیوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس کوشش میں کامیابی مل جاتی ہے تو پھر یہ خلیے کے اندر پہنچ کر اس کے وسائل پر قبضہ کرلیتا ہے اور نقل در نقل کرکے اپنی تعداد تیزی سے بڑھاتا ہے اور متاثرہ شخص کو بیمار کردیتا ہے۔
البتہ آر این اے وائرس کی 'نقل سازی' میں اس بات کا امکان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے کہ نئے بننے والے وائرس، پرانے وائرس کے مقابلے میں 'معمولی سے' مختلف ہوں۔ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد کو منتقلی کے دوران یہی عمل بار بار دوہرایا جاتا ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جمع ہوتے ہوتے بالآخر اتنی زیادہ ہوجاتی ہیں کہ وائرس کی ایک نئی قسم (ویریئنٹ) وجود میں آجاتی ہے جو اپنے پیشرو کے مقابلے میں واضح طور پر مختلف ہوتی ہے۔
اکثر اوقات ان تبدیلیوں سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا لیکن بعض مرتبہ یہ تبدیلیاں اس نئے ویریئنٹ کے پھیلاؤ اور ہلاکت خیزی میں اضافے کا باعث بن جاتی ہیں۔ یعنی وہ زیادہ تیزی سے پھیلنے، زیادہ لوگوں کو متاثر کرنے، زیادہ شدت سے متاثر کرنے، اور متاثرہ افراد کی زیادہ تعداد کو ہلاک کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
غریبوں کو ویکسین لگانا خود امیروں کی صحت کے لیے ضروری ہے
دنیا بھر کے مختلف ممالک میں وائرس کے ماہرین کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں اور نئے ویریئنٹس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں، لہٰذا جیسے ہی کسی نئے ویریئنٹ سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھنے لگتی ہے تو اسے 'قابلِ توجہ ویریئنٹ' (ویریئنٹ آف انٹرسٹ) قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کے مزید پھیلاؤ پر خصوصی توجہ دی جانے لگتی ہے۔ اب اگر اس نئے ویریئنٹ کے پھیلاؤ اور ہلاکت خیزی کا دائرہ کئی ملکوں تک وسیع ہوجائے تو پھر اسے 'قابلِ تشویش ویریئنٹ' (ویریئنٹ آف کنسرن) شمار کرتے ہوئے ساری دنیا کو اس سے خبردار کردیا جاتا ہے۔
کورونا وائرس کے الفا ویریئنٹ سے ڈیلٹا ویریئنٹ اور حالیہ ترین 'اومیکرون ویریئنٹ' تک، تمام ویریئنٹس اسی طرح وجود میں آئے ہیں (جبکہ مزید نئے ویریئنٹس بھی مسلسل وجود میں آتے جارہے ہیں)۔
اگر آپ اوپر لکھی ہوئی عبارت غور سے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کورونا وائرس جتنے زیادہ افراد کو متاثر کرے گا اس کے نئے ویریئنٹس بننے کا امکان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
البتہ اگر دنیا کے تمام لوگوں، ہر امیر اور غریب کو صحیح وقت پر کورونا ویکسین لگا دی جائے تو وائرس کا پھیلاؤ روکا جاسکے گا اور نت نئے ویریئنٹس کے جھنجھٹ سے بھی ہماری جان بڑی حد تک چھوٹ جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ وبائی ماہرین اور عالمی ادارے بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس عالمی وبا کا خاتمہ کرنے کے لیے دنیا کے تمام ملکوں بالخصوص غریب اور کم وسائل والے ممالک میں ویکسین لگانے کا کام بروقت اور تیزی سے مکمل کیا جائے۔ تاہم بڑے ادویہ ساز اداروں کو صرف اپنے مالی مفاد اور اہداف سے محبت ہے۔ شاید اسی لیے وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی غریب ممالک کو یکسر نظرانداز کیے بیٹھے ہیں۔
ان کی اسی ہوس اور بے حسی نے یہ دن دکھایا ہے کہ آج ہمارا سامنا ایک نئے ویریئنٹ 'اومیکرون' سے ہے جو جنوبی افریقہ سے نمودار ہوا ہے کہ جہاں اب تک بمشکلِ تمام صرف 40 فیصد شہریوں ہی کو کورونا ویکسین لگائی جاسکی ہے۔ بیشتر غریب ملکوں میں ویکسینیشن کے حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ ان ممالک میں کورونا وائرس پوری آزادی سے انسانوں کا شکار کھیل رہا ہے، خود کو بدل رہا ہے اور نت نئے ویریئنٹس میں ڈھلتا جارہا ہے۔
کورونا وائرس کا اومیکرون ویریئنٹ آسمان سے نہیں اترا بلکہ یہ انسانیت کی اُس تذلیل کا شاخسانہ ہے جو بڑی ادویہ ساز کمپنیوں کے ہاتھوں غریب ملکوں میں آج تک جاری ہے۔
اس خود غرضی کو اب رک جانا چاہیے بصورتِ دیگر یہ وبا شاید کبھی ختم نہ ہو بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خاکم بدہن پہلے سے زیادہ شدید ہوکر ایک بار پھر حملہ آور ہوجائے۔
کورونا کی عالمی وبا میں بھی دنیا کے سرمایہ داروں نے 3 ہزار 600 ارب ڈالر کا مجموعی منافع کمایا ہے۔ اس منافع کا تھوڑا سا حصہ اس دنیا کے تمام انسانوں کے لیے کافی ہوگا لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی طرح انسانیت پر رحم کھانے کے لیے تیار نہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ 'ویکسین کیپٹل اِزم' ایک عالمی انسانی بحران کو جنم دے چکا ہے۔ غریب ممالک اپنے دوسرے سنگین مسائل کے ساتھ ساتھ اس وبا کا عذابِ مسلسل بھی جھیل رہے ہیں۔ امیر ملکوں اور وہاں پر نادیدہ اقتدار رکھنے والے سرمایہ داروں کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ البتہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج جس عالمی وبا کی آگ سے وہ محفوظ ہیں، کل وہ ان کے اپنے گھروں کو بھی جلا کر خاک کرسکتی ہے۔ یہ کسی غریب کی بددعا نہیں بلکہ قدرت کا قانون ہے۔
آپ چاہے کتنے ہی بڑے سرمایہ دار کیوں نہ ہوجائیں، قانونِ قدرت کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے اور کورونا وائرس بھی قدرت کے بنائے ہوئے قوانین کا پابند ہے، سرمایہ دارانہ نظام کا غلام نہیں۔
بلاگر کا شمار پاکستان کے سینئر ترین سائنسی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے سائنسی صحافتی سفر کا آغاز 1987ء میں کیا۔ اس دشت کی سیاحی آج تک جاری ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب ‘سائنس، فراڈ اور دھوکہ’ ہے جو اگست 2021ء میں شائع ہوئی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔