• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وہ سرخ موٹر کار

اس کہانی میں نجمہ ایک سرخ موٹر کار میں وارد ہوئی۔ یہ کہانی کا وہ کردار تھا جو بے خوف تو تھا مگر اس میں عقل کی کمی تھی۔
شائع December 11, 2021 اپ ڈیٹ December 12, 2021

زینت ہارون راشد رائٹنگ پرائز فار وومن کا آغاز 2019ء میں کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد ان خواتین کی حوصلہ افزائی اور انہیں مدد فراہم کرنا تھا جو قلم کاری کو اپنا پیشہ بنانا چاہتی ہیں۔ اس سال کے مقابلے میں تحریروں کی جانچ کاملہ شمسی، مریم واصف خان، حنیف قریشی، فائزہ ایس خان اور شان واحدی نے کی۔ یہ مقابلہ ایک افسانوی کہانی ’نجمہ‘ نے جیتا۔ جیوری کے مطابق اس کہانی میں ’قلم کاری کی بہترین صلاحیتوں‘ کا اظہار کیا گیا ہے۔ حسب سابق مقابلہ جیتنے والی کہانی کو خصوصی طور پر ای او ایس میں شائع کیا جارہا ہے۔

تصویر: کہکشاں خالد
تصویر: کہکشاں خالد

پاکستانیوں کے لیے خود کو پنکھے سے لٹکا لینا عام بات ہے۔ دیکھا جائے تو وہ اس طریقے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے باوجود جب مجھے ایک فون کال موصول ہوئی تو میں یہ تصور نہ کرسکی کہ میری دوست نجمہ کمرے کے وسط میں آلو کی بوری کی طرح لٹک رہی ہوگی۔

نجمہ سے میری ملاقات لاہور سے کراچی واپسی کے فوری بعد ہی ہوگئی تھی۔ میں نے بہت فرمانبرداری کے ساتھ 4 سال کسی چیز کی ڈگری حاصل کرنے میں صرف کیے تھے۔ میری نوجوانی کی زندگی کا بیشتر حصہ اس عمومی بے دلی پر ہی مشتمل ہے۔ میں کلفٹن کے ساحل پر پھرنے والے کسی اونٹ کی طرح دوسروں کے کہنے پر ہی چلتی تھی۔ خواتین کے مناسب لباس کے حوالے سے امّی کے بہت سخت قوانین تھے جنہوں نے میرے اندر لڑکپن کے معمولی سے باغیانہ رویے کو بھی ختم کردیا تھا۔ امّی ہی یہ فیصلہ کرتی تھیں کہ ملنے جلنے کے لیے کون سی لڑکیاں ٹھیک ہیں جبکہ اس بات کا تعین ابّو کرتے تھے کہ میں نے کس کالج میں داخلہ لینا ہے اور کون سا شعبہ مناسب اور آسان ہے۔ ان کے اس رویے کے لیے ان پر تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ میں نے بھی کبھی پہل کی اور نہ ہی مزاحمت دکھائی۔

اس کہانی میں نجمہ ایک سرخ موٹر کار میں وارد ہوئی۔ یہ کہانی کا وہ کردار تھا جو بے خوف تو تھا مگر اس میں عقل کی کمی تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں زندگی سے بھرپور تھیں اور اس کا پیٹ اکثر صوبائی وزرا کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ وہ مجھ سے تقریباً 20 سال بڑی تھی لیکن پھر بھی وہ اصرار کرتی تھی کہ میں اسے نجمہ ہی پکاروں جو عجیب بھی لگتا تھا اور اچھا بھی۔ وہ اکثر یہ غلط دعویٰ کرتی تھی کہ وہ ڈرائیونگ اسکول میں پیسوں کی وجہ سے ڈرائیونگ نہیں سکھاتی بلکہ وہ یہ کام اس لیے کرتی ہےتاکہ مصروف رہ سکے۔ وہ دوپہر 3 بجے مجھے لینے آتی تھی۔

نجمہ جب مجھے پہلی مرتبہ ٹریفک کے درمیان لے گئی تو اس نے مجھے یہ یقین دلوایا کہ جیسے میں گاڑیوں، موٹرسائیکلوں، گدھا گاڑیوں اور عجیب رنگ برنگی بسوں کے درمیان اڑ رہی ہوں۔ جب ہم واپس میرے گھر کے دروازے پر رکے تب نجمہ نے پیسنجر سیٹ پر موجود کنٹرول پیڈل کو ظاہر کیا، یعنی وہ برابر میں بیٹھ کر گاڑی کو کنٹرول کررہی تھی۔ اس نے اپنے دفاع میں کہا کہ ’تمہیں اپنے خوف سے جان چھڑانی ہوگی، اس خوف کے ساتھ تم کچھ نہیں کرسکتی‘۔

ہر دوپہر ہم دو خواتین دائروں میں سفر کرتے ہوئے اپنی تقدیر سے دُور بھاگتی تھیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ آخر میں ہم پکڑے ہی گئے۔ میری شادی ہوگئی، بچے ہوئے اور نجمہ... وہ جیل چلی گئی۔

***

ہم نجمہ کے درزی کی دکان کے باہر گاڑی پارک کرتے، (ہم ان دوپہروں میں نجمہ کے یہ چھوٹے موٹے کام بھی کیا کرتے تھے) اور میں تحریری ہدایات لے کر اندر جاتی اور اس کا سامان دے دیتی۔ نجمہ اتنی موٹی تھی کہ اس کے لیے گاڑی سے اترنا مشکل تھا۔ ہماری گاڑی دو جیپوں کے درمیان میں پھنس چکی تھی اور دونوں جانب جگہ اتنی کم تھی کہ میں بھی بمشکل ہی گاڑی میں داخل ہوسکی۔ میں بے پرواہ ٹریفک میں گاڑی یوں ہی ریورس نہیں کرسکتی تھی۔ گھبراہٹ سے مجھے اپنا رنگ بدلتا محسوس ہورہا تھا۔

’نجمہ، میں پھنس گئی، یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، کوئی نہیں رک رہا ہے‘۔

میں تیزی سے یہ سیکھ رہی تھی کہ اصل امتحان کھلی سڑکیں اور خیابان نہیں ہیں بلکہ یہ پیچیدہ بازار ہیں۔ یہاں کی سڑکیں تنگ بھی ہوتی ہیں اور ان میں گڑھے بھی ہوتے ہیں۔ یہاں ڈرائیور مخالف سمت بھی آتے ہیں اور یہاں ڈبل پارکنگ بھی ہوتی ہے۔ آوارہ لوگ منہ میں تمباکو بھرے کسی کی پرواہ کیے بغیر سڑک پر پھرتے رہتے ہیں۔ کتے سورہے ہوتے ہیں۔ مرد تھوک رہے ہوتے ہیں۔

’کوئی آپ کے لیے نہیں رکے گا‘۔

کراچی ساحل پر لوگ کا رش—تصویر: فہیم صدیقی / وائٹ اسٹار
کراچی ساحل پر لوگ کا رش—تصویر: فہیم صدیقی / وائٹ اسٹار

نجمہ اپنی سیٹ پیچھے جھکائے بیٹھی تھی اور اس کا ایک پیر ڈیش بورڈ پر تھا۔ اس کی ایڑیوں پر مردہ جلد کائی کی طرح لگ رہی تھی۔ اس نے ٹانگ موڑی اور اپنا گندا پیر اسٹیئرنگ پر رکھتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی۔

سیکنڈوں میں اس نے اپنے لیے جگہ بنا لی تھی۔ اس دوران ہمارے پیچھے ہارن کا شور مچ گیا۔ اس شور کو سن کر میں نے بھی شور میں حصہ ڈالتے ہوئے ہارن بجا دیا۔ نجمہ ہنسی اور ڈرائیوروں کو بُرا بھلا کہتے ہوئے گاڑی موڑ کر لے گئی۔ اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مچھلی کو دوبارہ پانی میں ڈال دیا گیا ہو۔

اس نے کہا کہ ’یہ سڑکیں دراصل موت کے پھندے ہیں، یہاں قوانین کی پابندی تمہیں مار ڈالے گی۔ سڑک پر ایک اکیلی عورت نکلے گی تو روندی ہی جائے گی‘۔ وہ دوبارہ اپنی سیٹ سے ٹیک لگا کر لیٹ گئی۔ اس نے خوشی سے ایک آہ بھری جیسے اسے روندے جانے سے بچنے کا راز مل گیا ہو۔ ’ان فضول چیزوں کو چھوڑو، ساحل پر چلو۔ ویسے بھی اتنے خوف کے ساتھ تم کچھ بھی نہیں سیکھ سکتی‘۔

لیکن یہ بہت ہی غلط فیصلہ تھا۔ سورج نے ہمیں بھون کر رکھ دیا تھا اور تپتی ریت نے ہمارے پیر جلا دیے تھے۔ راستے میں ہم نے برف والی نارنگی قلفیاں بھی خریدیں جو ہمارے ہاتھوں میں ہی پگھلنے لگیں۔ میری والدہ انہیں گھر میں نہیں رکھتی تھیں، وہ کہتی تھیں کہ یہ کیمیکل سے بنتی ہیں اور یہ سرطان کی وجہ بن سکتی ہیں۔ میں نے ان قلفیوں کی چپچپاہٹ تو سمندر میں دھو لی لیکن نجمہ نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے اپنے بیگ میں موجود کئی پانی کی بوتلوں میں سے ایک نکالی جو وہ مجھے ہمیشہ گھر سے لانے کی تاکید کرتی تھی، پھر اس نے بوتل میں موجود پانی سے ہاتھ دھوئے۔

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ جہاں رہتی تھی وہاں پانی کم ہی آتا تھا۔ قلفی کھانے کے بعد نجمہ کا منہ بھی نارنگی ہوچکا تھا لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔ اس نے سورج کی جانب رخ کرکے اپنی آنکھیں بند کیں اور منہ سے کوئی دھن گنگنانے لگی، مجھے ایسا لگا جیسے میں نے بھی اس دھن کو کہیں سنا ہوا ہے، وہ کسی افسردہ سے عشقیہ گانے کی دھن تھی۔ پلم لپ اسٹک کی وجہ سے اس کی رنگت غیر ضروری طور پر حقیقت سے زیادہ گہری لگ رہی تھی۔ ساحل پر کچھ اونٹ بھی بیٹھے تھے جو دُور سے دیکھنے پر عجیب سے خیمے لگ رہے تھے۔ ان کی گردنوں میں پڑے ہار سے گزر کر آنے والی ہوا گلاب کی خوشبو لیے آتی تھی۔

مجھے گھر پر اتار کر نجمہ نے مجھے گھر سے پانی کا بڑا گلاس لانے کو کہا۔ وہ بہت زیادہ لیکن چھوٹے چھوٹے مطالبات کرتی تھی، جیسے پانی، پرانے کپڑے، کبھی کچھ سو روپے اور اپنے بچوں کو انگریزی پڑھانے کے لیے انگریزی کتابیں۔ اس کے گلاس میں موجود برف کے کھنکنے کی آواز سنتے ہوئے میں نے اس سے کہا کہ ’نجمہ آج کا دن بہت اچھا تھا‘۔

***

وہ بھی ایک نیا دن تھا جب میں نے اس بچے کی جان لے لی تھی۔ سمندری پرندے ساحل پر اُڑ رہے تھے اور نمکین سمندری ہوا بھی تیز تھی۔ اس دن نجمہ نے اس وقت کا انتخاب کیا جب سڑکیں خالی ہوتی ہیں۔ وہ مجھے رفتار سے روشناس کروانا چاہتی تھی تاکہ میرا ڈر نکلے۔

کراچی کے ٹریفک کو جھیلنا کوئی مذاق نہیں—تصویر: شکیل عادل / وائٹ اسٹار
کراچی کے ٹریفک کو جھیلنا کوئی مذاق نہیں—تصویر: شکیل عادل / وائٹ اسٹار

اس نے کہا کہ ’اگر تم خود کو بندش اور خوف سے آزاد نہیں کرتی اور کچھ حوصلہ نہیں کرتی تو شاید ہمیں یہ کوشش ترک کرنی پڑے۔ اس وقت سڑک پر کوئی نہیں ہے، یہ تمہاری ہے۔ میں صبح 6 بجے اسی لیے آئی ہوں تاکہ تم خالی روڈ پر گاڑی دوڑا سکو‘۔

میں نے ایکسیلریٹر پر زور ڈالا تو نجمہ ہمیشہ کی طرح سستی سے سیٹ سے ٹیک لگا کر لیٹ گئی اور ہالی وڈ کے کسی منظر کی طرح اپنے بازو کو اپنے سر پر رکھ لیا۔ خالی سڑک پر بھی مجھ میں رفتار 40 سے بڑھانے کی ہمت نہ ہوئی لیکن پھر اس نے مجھے رفتار بڑھانے پر دوبارہ راضی کرلیا۔ اس کے بعد معلوم نہیں کیسے گاڑی 80 کی رفتار پر سفر کر رہی تھی۔ تیز ہوا نہ صرف میرے بال اڑا رہی تھی بلکہ اس سے نجمہ کا دوپٹہ بھی اڑ رہا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں اس دنیا کو چھوڑ کر کسی اور سیارے پر جارہی ہوں جہاں نہ کوئی قانون ہوگا اور نہ کوئی پریشانی۔

وہ بچہ بھی اسی طرح اچانک میرے سامنے آگیا جیسے اس عمر کے بچے کرتے ہیں۔ وہ ایک کالی الیکٹریکل ٹیپ میں لپٹی گیند کا پیچھا کررہا تھا۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ وہ کسی گہری رنگت کی چڑیا کی طرح ہوا میں اڑتا ہوا اوپر کی جانب گیا اور پھر فوراً ہی سڑک پر گر گیا۔ شاید میں گاڑی سے اتر کر اس تک گئی ہوں گی کیونکہ میں اس چھوٹے سے جسم کے سامنے کھڑی تھی جس میں سے خون بہہ رہا تھا، مجھے نہیں معلوم کہاں سے لیکن خون بہتا ہی جارہا تھا۔ نجمہ میرے ساتھ نہیں کھڑی تھی، جیسے ہی میں اس بچے کو اٹھانے لگی تو گاڑی میں سے نجمہ کی آواز آئی کہ اسے ہاتھ مت لگانا۔ پھر اس نے کہا کہ تمہیں خدا کا واسطہ ایسا مت کرنا۔ بلآخر جب میں نے اسے کہا کہ وہ کسی کو بلائے تو اس نے مجھے کہا کہ ابھی گاڑی میں واپس آؤ ورنہ میں تمہیں چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔ شاید میں گاڑی میں بیٹھ گئی تھی کیونکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کچھ دیر بعد گاڑیاں، بسیں اور رکشے سڑکوں پر ایسے رواں دواں تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

اس بچے کو ٹکر مارنے کے بعد میری نجمہ سے مزید کچھ ملاقاتیں ہوئیں۔ اس نے ہماری پرانی بے تکلفی واپس لانے کی بہت کوششیں کیں، وہ الٹے سیدھے گانے گاتی، اور وہی بے ہودہ مذاق کرتی۔ اس نے فقیروں کو بھی بہت خیرات دینا شروع کردی تھی۔ اسی طرح میں بھی ایک فلاحی ادارے کے ساتھ مل کر شہر بھر میں کھانا تقسیم کرنے لگی، میرے اس قدم سے امّی ابّو بھی حیران رہ گئے۔

کوئی بھی مصروفیت دن بھر بستر میں منہ چھپائے پڑے رہنے سے بہتر تھی۔ اس بچے کو ٹکر مارنے کے کچھ دن بعد تک میں بیماری کا بہانا بناکر واقعی چادر میں منہ چھپائے پڑی رہتی تھی۔ میں کسی بھی آواز سے چونک جاتی تھی، پھر چاہے وہ بلی کی آواز ہو یا ریفریجریٹر کا دروازہ بند ہونے کی آواز، امّی کے ہیئر ڈرائیر کی آواز ہو یا ایئر کنڈیشنر کی گڑگڑاہٹ، مجھے ایسا لگتا جیسے ابھی کوئی کندھا تھپکا کر کہے گا کہ ’کھیل ختم‘۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس بچے کا نام اخبار میں ضرور آیا۔

میں جب آخری بار نجمہ سے ملی تو میں نے اسے اس بچے کا نام بتایا ’جوزف، اور وہ بچہ بھی نہیں تھا، اس کی عمر 17 سال تھی‘۔

نجمہ قلفی کھانے کے بعد اپنی انگلیاں چاٹ رہی تھی۔ ہم اب جب بھی ساحل پر جاتے تو قلفیاں ضرور لے جاتے تھے۔ شاید اس نے سمجھا ہو کہ ان سے اسے کچھ مدد ملے گی۔ میں نے اپنے بیگ میں سے اخبار نکال کر اس کے آگے کیا اور کہا کہ ’دیکھو‘۔

’اسے ہٹاؤ یہاں سے‘، نجمہ نے اخبار دیکھ کر اس طرح کہا جیسے وہ کوئی ہتھیار ہو۔ اس دن ساحل پر ایک ہی اونٹ تھا اور اس کا مالک بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ کچھ لمحوں پہلے مچھلی کا ٹرک وہاں سے گزرا تھا اس وجہ سے آج گلاب کی بجائے نمک اور انتڑیوں کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔

میں نے نجمہ سے کہا ’ہمیں اخبار کے دفتر جانا چاہیے یا پولیس اسٹیشن، ہمیں اس کے گھر والوں کو ڈھونڈنا چاہیے۔ انہیں کم از کم ایک چیک دینا چاہیے‘۔

نجمہ میری جانب مڑی، وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے میری جانب دیکھ رہی تھی۔ اس نے میری کلائی پکڑ کر کھینچی اور کہا کہ ’کیا پاگل ہوگئی ہو؟ اپنا منہ بند رکھو، میں تمہیں بچانے کی کوشش کررہی ہوں‘۔

میں نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور دوبارہ ساحل کی گرم ریت پر بیٹھ گئی، میں نے دھوپ کی عینک کے پیچھے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور خاموش نہ رہنے کی کوشش کی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نجمہ وہ جانی پہچانی دھن گنگنانے لگی۔

’خبردار‘ میں نے یکدم کھڑے ہوتے ہوئے کہا ’خبردار جو تم مزید گنگنائیں‘۔

’بیٹھ جاؤ‘ نجمہ نے غراتے ہوئے کہا۔ ہم کچھ دیر تک ایک دوسرے کو گھورتے رہے اور پھر میں دوبارہ ریت پر بیٹھ گئی۔

’مجھے معلوم ہے تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سب تمہارا قصور ہے۔ ہمیشہ کی طرح تم نے ایکسیلریٹر دبایا تھا‘۔ مجھے اسے یہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا، اس دن نجمہ نے مجھے گھر پر چھوڑتے ہوئے خبردار بھی کیا تھا کہ میں اپنا منہ بند رکھوں لیکن میں خود کو روک نہ سکی۔ میں بہت حساس تھی۔ اور میں نجمہ کا ساتھ کیوں دیتی؟ نجمہ، جو پہلے دن کی طرح خود ایکسیلریٹر کنٹرول کرکے مجھے دھوکہ دے رہی تھی جس نے بعد میں سارا الزام مجھ پر ڈالنا تھا، ایک لاپرواہ، ناتجربہ کار زیرِ تربیت ڈرائیور پر، ایک خوفزدہ لڑکی پر جو کوئی بھی الزام اپنے سر لے لے گی، نہیں، قصور وار تو نجمہ ہی ہے‘۔

’میری بات کان کھول کر سنو‘، اس کے چہرے پر غصے اور خوف کے ملے جلے تاثرات تھے۔ ’تم مجھ میں اور خود میں فرق کو سمجھتی ہو؟ تم تو اس بچے کے گھر والوں کو چیک دے دو گی لیکن میں لٹکا دی جاؤں گی۔ اب سمجھ آئی تمہیں؟‘

***

گزرتے وقت کے ساتھ مجھے یقین تھا کہ نجمہ مجھے بھول چکی ہوگی، وہ اپنی زندگی جی رہی ہوگی اور مجھے بھول چکی ہوگی۔ ایک مناسب آدمی کے ساتھ اپنی شادی سے کچھ ہفتے قبل میں نے مستقبل کے خوف سے متاثر ہوکر نجمہ کو فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈرائیونگ اسکول کے منیجر نے مجھے بتایا کہ اسے نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ وہ صارفین کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ملنسار ہورہی تھی اور انہیں پریشان کررہی تھی۔ پھر اس نے کچھ مزید باتیں بھی بتائیں۔ وہ قرض دینے والوں کے شنکجے میں بھی پھنس گئی تھی اور پھر وہ جعلی دستاویزات اور دیگر دھندوں میں بھی پڑگئی تھی۔ یہ تمام جرائم ثابت ہوگئے اور ہر جرم دوسرے جرم سے پردہ اٹھاتا گیا۔ اسے جیل میں ڈال دیا گیا جہاں سے وہ پھر کبھی باہر نہ آسکی۔

***

میں نجمہ کے بارے میں جو کچھ جانتی ہوں وہ یہاں بیان کررہی ہوں، وہ میری طرح کے کسی بہت اچھے خاندان سے نہیں تھی۔

نجمہ کے کوئی 5 یا 6 بھائی بہن تھے، شروع میں ایک یا دو زندگی کی بازی ہار گئے لیکن بعد والے زندگی کے لیے زیادہ پُرعزم تھے، ان میں نجمہ کا نمبر چوتھا تھا۔

ہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے نجمہ کے والد یعنی بابا اپنے خاندانی کاروبار کو اختیار نہیں کرسکے۔ نئے شہر میں وہ تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ اس شعبے میں موجود دیگر لوگوں کی طرح وہ شمالی علاقوں سے نہیں آئے تھے۔ سرخ و سفید چہرے والوں کے درمیان وہ ایک سانولی رنگت والے شخص تھے جو مزدوری کرتے تھے۔ ان کے غیر متوقع پشتون دوستوں نے ان کے لیے ٹرانسپورٹ کے شعبے، جس میں وہ جلد ہی حاوی آنے والے تھے، میں پہلے چھوٹے موٹے اور پھر باقاعدہ کام کا بندوبست کردیا۔ نجمہ کے بابا کے لیے طویل راتیں دنوں میں بدلتی رہیں اور وہ اپنے ٹرک کو لیے ملک کے طول و عرض میں پھرتے رہے۔ وہ نجمہ کے بارے میں سوچتے تھے کہ کیا اس کا حال بھی ان کے دیگر بچوں کی ہی طرح ہوگا یا وہ زندگی کی بازی جیت لے گی؟ جاگتے رہنے اور ٹرک چلاتے رہنے کے لیے انہیں جو کچھ ملتا وہ استعمال کرلیتے جس سے ان کا ذہن افسانوی جگہوں میں پہنچ جاتا۔

بابا بہت محبت سے اپنے ٹرک کو پینٹ کرتے جیسے وہ کوئی نسوانی جسم ہو۔ وہ لوہے کہ اس ڈبے سے بہت میٹھے انداز میں سرگوشیاں کرتے۔ وہ اس پر اپنی انگلی پھرتے اور دیکھتے کہ کہاں پینٹ کم رہ گیا ہے۔ ٹرک کے بمپر پر ایک مور اپنے پر کھولے ہوئے تھا، کارگو بیڈ کی دیواروں کو شوخ رنگوں کے ڈبوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر ڈبے میں مختلف تصاویر موجود تھیں، کسی میں کوئی پرندہ، کہیں گلاب، کوئی مچھلی تو کبھی کاجل بھرے نین۔

نجمہ کی عمر اس وقت 9 یا 10 سال تھی، وہ ایک بالٹی پر بیٹھی اپنے والد کو دیکھتی جو اپنی محبوبہ کے ناز اٹھا رہے ہوتے تھے۔ بلآخر بابا نے نجمہ کو اجازت دی کہ وہ برش، اسپنج یا اسٹیل وول استعمال کرسکتی ہے اور پھر وہ دونوں مل کر ٹرک کو سجانے لگے۔ اس کام کے دوران بابا محبت یا خدا کے بارے میں کوئی گیت گنگناتے۔ انہیں نجمہ پر فخر تھا، یہ ایسے ہی تھا جیسے ان کا اور بیٹا ہو۔ ’تم بڑی مت ہونا‘ بابا نے نجمہ سے التجا کرتے ہوئے کہا ’اس سے زیادہ بڑی مت ہونا‘۔ بابا نے اپنے سالے کی پرانی گاڑی پر نجمہ کو گاڑی چلانا سکھائی اور 12 سال کی عمر میں نجمہ محلے میں فراٹے بھر رہی ہوتی تھی، نجمہ وہی گیت گنگناتی جو اس کے والد گنگناتے تھے یا وہ ریڈیو کی آواز اونچی کرکے رکھتی۔ اس نے اپنے والد کی بات کو نظر انداز کردیا، اور وہ بڑی ہوتی رہی۔

نجمہ اپنے ہونے والے شوہر سے ملنے سے قبل جس شخص سے ملی وہ اپنے لوگوں کی نمائندہ جماعت سے بہت وفادار تھا۔ اس وفاداری نے اس شخص کے ساتھ نجمہ کو بھی افراتفری اور تباہی میں دھکیل دیا۔ نجمہ کے لیے یہ سب معنی نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ موقع پرست تھی، اپنے والد کی طرح وہ بھی خود ہی سب کچھ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وہ جس شخص سے ملی تھی وہ جب اپنے حقوق کی بات کرتا، پیچھے رہ جانے والی عظیم ہندوستانی ثقافت کی بات کرتا، ریاست کے اندر اپنے بے آسرا ہونے کی بات کرتا اور اس شہر پر اپنے حق کی بات کرتا تو طالب علموں کی آنکھیں چمک اٹھتیں۔ یوں نجمہ نے اپنی محبت کی وجہ سے پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اسے بہت اچھا لگتا تھا جب وہ اسے میز پر مکا مارتے ہوئے دیکھتی یا اتنی شدت سے چلاتے ہوئے دیکھتی کہ اس کے منہ سے تھوک اڑرہا ہوتا۔ کیا ہی بات ہے کہ آپ کسی چیز پر مکمل یقین رکھیں اور یہ کام کرتے ہوئے اتنے اچھے بھی نظر آئیں۔

نجمہ نے پارٹی کے لیے وین، ایمبولینس اور چھوٹے ٹرک تک چلائے۔ اس نے اس شہر اور اس کے پھیلاؤ سے واقفیت حاصل کی۔ یہ شہر اس کے اتنا ہی قریب تھا جیسے اس کا اپنا وجود، اس کے پیروں کی پھٹی ہوئی جلد۔ پھر پارٹی کو شہر کی حکومت مل گئی، بلدیاتی انتخابات جیتنے کے بعد اس نے حکومتی اداروں کو کنٹرول کرلیا۔ پارٹی مکمل اطاعت کا تقاضہ کرتی تھی اور نجمہ کو اس سے نفرت تھی۔ تاہم کسی بڑی قوت کے ساتھ ہونے کے کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ پانی، بجلی، علاج جو کچھ اس کے گھر کی ضرورت تھی اسے وہ سب کچھ ملتا تھا۔ جب وہ رات کو مردوں کی طرح گھر سے نکلتی تو اس کی والدہ پریشان نہیں ہوتیں بلکہ مسکرا دیتیں۔ بابا کو یہ بُرا ضرور لگتا تھا لیکن وہ کچھ نہیں کہتے تھے کیونکہ وہ یہ سب پارٹی کے لیے کرتی تھی۔ اعلیٰ عہدے دار اس کے حوصلہ کی تعریف ضرور کرتے تھے لیکن اسے کبھی ٹی ٹی پستول نہیں دیتے تھے۔

آخر کار وہ طالب علم نجمہ کو چھوڑ گیا۔ اس کی وجاہت کے بغیر وہ اس افراتفری اور یس سر نو سر سے تھک گئی۔ ایک سرد رات کو ایک موٹر سائیکل اس کی ایمبولینس کا آگے آکر رک گئی۔ نجمہ نے ایک گالی دی اور بریک لگادی۔ دو لوگ موٹر سائیکل سے اترے، ان میں سے ایک بڑی جسامت والے شخص نے کھڑکی پر اپنی بندوق سے دستک دی۔

’باہر نکلو‘۔

اس نے نجمہ کو وین کے ساتھ کھڑا کردیا اور دوسرے شخص نے اپنی بندوق اس کے پیٹ میں دھنسادی۔

’تم رات کے اس وقت کیا کررہی ہو؟‘

’جناب‘، نہ جانے اسے یہ کہتے ہوئے کتنا بُرا لگا ہوگا، ’میں مریض لے جارہی ہوں‘۔

اس رات کی حرارت میں انہوں نے اپنی آستینیں چڑھائیں جس سے ان کے بازو پر سوئیوں کے نشانات نظر آنے لگے۔ جب وہ دونوں وہ کام کرچکے جو مرد کرتے ہیں اور اس کے سر کو ڈھانپنے کے لیے کچھ انتباہات کے بعد وہ بور ہوگئے تو اسے ایمبولینس کے پاس چھوڑ کر چلے گئے۔ کچھ ماہ بعد بے قابو ہوچکی پارٹی کو اس کی جگہ پر لانے کے لیے فوج شہر میں داخل ہوئی۔ اس دوران پارٹی کے اراکین چھپتے پھرتے رہے لیکن نجمہ کو ان سب چیزوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

***

اعتراف: وہ کوئی سرخ رنگ کی گاڑی نہیں تھی۔ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی سرمئی رنگ کی آلٹو گاڑی تھی جس میں نہ ایئر کنڈیشنر چلتا تھا اور نہ ہی اشارے۔ اس کی سیٹ میں سے فوم باہر نکلا ہوا تھا۔ کسی نے اس کے بمپر پر ایک مور پینٹ کردیا تھا اور گاڑی کی دونوں طرف سفید رنگ سے ’کلفٹن ڈرایئونگ اسکول فار لیڈیز اینڈ جینٹس‘ لکھا ہوا تھا۔ لیکن میرے تخیل میں نجمہ ایک ٹوڈ کی طرح ہے اور اس وجہ سے گاڑی کا سرخ رنگ موزوں ہے۔

میں ہم دونوں کو کشادہ شاہراہوں اور انڈر پاس میں اس عجیب و غریب گاڑی کو دوڑاتے اور اور کئی تعمیراتی مقامات سے گزرتے ہوئے دیکھتی جس سے اس گاڑی کے سواروں کو اس کی حرکت کا حساس ہوتا تھا۔ کبھی ہم تنگ بازاروں میں ہوتے تھے، کبھی رہائشی علاقوں کی سڑکوں پر اور کبھی شہر کے قدیم مرکز میں۔ کبھی ہم ہائی کورٹ کے سامنے سے گزرتے تھے جہاں سڑک پر کھانے پینے کے کئی اسٹال موجود ہوتے، ہم وہاں ہمیشہ رکتے تاکہ نجمہ اپنے چھوٹے موٹے کام نمٹا سکے اور ان کھانے پینے کے اسٹالز پر بکنے والی غلاظت خرید سکے۔ میں نے خود کو کبھی اس سے زیادہ آزاد تصور نہیں کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کے جنازے میں شرکت کی جائے یا نہیں۔ ہم ویسے بھی جنازہ بہت دیر تک نہیں رکھتے، نجمہ کی جلد ہی تدفین کردی جائے گی۔ مجھے فوراً کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔


لکھاری ایک صحافی اور مدیرہ ہیں جن کی تحاریر ہیرالڈ، ڈان اور نیویارک سے جاری ہونے والے سہ ماہی ادبی جریدے دی ہڈسن ریویو میں شائع ہوتی رہی ہیں۔

مقابلہ جیتنے والی اس کہانی کا اصل عنوان 'نجمہ' تھا۔


جملہ حقوق بحق عالیہ احمد محفوظ ہیں۔


یہ تحریر ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں 21 نومبر 2021ء کو شائع ہوئی۔

عالیہ احمد

لکھاری ایک صحافی اور مدیرہ ہیں جن کی تحاریر ہیرالڈ، ڈان اور نیویارک سے جاری ہونے والے سہ ماہی ادبی جریدے دی ہڈسن ریویو میں شائع ہوتی رہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔