اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے رضاکار کی گرفتاری پر تنقید
اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں ایک معروف رضاکار کی گرفتاری پر سخت تنقید کی ہے۔
خرم پرویز کو پیر کی رات بھارت کی وفاقی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے گرفتار کیا تھا۔
ایک بھارتی اہلکار نے خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کو صورتحال کے بارے میں بتایا کہ خرم پرویز کی رہائش گاہ اور دفتر کی تلاشی لی گئی اور ایک موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کتابیں ضبط کی گئیں۔
این آئی اے کے ترجمان نے منگل کو خرم پرویز کی گرفتاری کی تصدیق کی۔
مزید پڑھیں: بھارت نے معروف کشمیری رضاکار خرم پرویز کو گرفتار کر لیا
بتایا گیا کہ انہیں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا ہے جو بغیر کسی مقدمے کے کسی بھی مشتبہ شخص کو 6 ماہ تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
ان کے وکیل پرویز امروز سے فوری طور پر رائے کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا۔
انسانی حقوق کے محافظوں کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پریشان کن خبریں سن رہی ہوں کہ خرم پرویز کو آج کشمیر میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر دہشت گردی سے متعلق جرائم کے الزام میں بھارت میں حکام کی طرف سے فرد جرم عائد کیے جانے کا خطرہ ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ دہشت گرد نہیں ہیں، وہ انسانی حقوق کے محافظ ہیں‘۔
مقبوضہ کشمیر کے معروف رضاکاروں میں سے ایک خرم پرویز جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے سربراہ ہیں جو کہ خطے میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کا ایک گروپ ہے۔
اس سے قبل انہیں 2016 میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے فورم میں شرکت کے لیے طیارے میں سوار ہونے سے روکنے کے بعد اسی طرح کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط نو آبادیات کی بدترین مثال ہے، پاکستان
بعد ازاں انہیں کسی جرم میں مجرم ٹھہرائے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا۔
بھارت کو طویل عرصے سے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا ہے، نئی دہلی ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
بھارت اقوام متحدہ سمیت غیر ملکی مبصرین کے لیے مقبوضہ کشمیر تک رسائی پر سختی سے کنٹرول رکھتا ہے۔