بھارت نے معروف کشمیری رضاکار خرم پرویز کو گرفتار کر لیا
بھارت کی انسداد دہشت گردی کی اعلیٰ تحقیقاتی ایجنسی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے ایک سرکردہ رضاکار خرم پرویز کو ان کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارنے کے بعد گرفتار کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کی اہلیہ ثمینہ نے بتایا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے اہلکاروں نے خرم پرویز کو سری نگر سے گرفتار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خرم پرویز کا موبائل فون، لیپ ٹاپ اور چند کتابیں بھی ضبط کر لیں اور کہا کہ یہ 'دہشت گردی کی فنڈنگ' کا معاملہ ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط نو آبادیات کی بدترین مثال ہے، پاکستان
42 سالہ خرم پرویز متنازع علاقے میں بڑے پیمانے پر قابل احترام انسانی حقوق کے گروپ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کے پروگرام کوآرڈینیٹر اور ایشین فیڈریشن اگینسٹ انوولنٹری ڈسپیئرنس (اے فی اے ڈی) کے چیئرپرسن ہیں۔
این آئی اے نے گرفتاری یا چھاپے کے بارے میں فوری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا تاہم خبر رساں ایجنسی کی نظر سے گزرے وارنٹ گرفتاری سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کی مختلف دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے محافظوں کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پریشان کن خبریں سن رہی ہوں کہ خرم پرویز کو آج کشمیر میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر دہشت گردی سے متعلق جرائم کے الزام میں بھارت میں حکام کی طرف سے فرد جرم عائد کیے جانے کا خطرہ ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ دہشت گرد نہیں ہیں، وہ انسانی حقوق کے محافظ ہیں‘۔
این آئی اے کے افسران نے ’جے کے سی سی ایس‘ کے دفاتر کی 14 گھنٹے سے زیادہ تلاشی لی۔
این آئی اے نے گزشتہ سال اکتوبر میں بھی خرم پرویز کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا تھا اور ریسرچ کا مواد، موبائل فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیوز ضبط کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے 2 برس، ملک بھر میں یومِ استحصال منایا جارہا ہے
انسانی حقوق کا گروپ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے خطے میں تشدد کی نگرانی کر رہا ہے اور متعدد رپورٹس میں تشدد، ماورائے عدالت قتل اور غیر نشان زدہ اجتماعی قبروں سمیت بھارتی حکومتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے اس نے سری نگر میں مبینہ باغیوں کے ساتھ ایک متنازع فائرنگ کے تبادلے کے دوران شہریوں کو ہلاک کرنے پر سیکورٹی فورسز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جن کی لاشیں بھارتی پولیس نے ان کے اہل خانہ کی موجودگی کے بغیر ایک دور دراز قبرستان میں دفن کردی تھیں۔