’سفارتکاری، ایران کا جوہری پروگرام روکنے میں ناکام ہوئی تو تمام آپشنز موجود ہیں‘
مشرق وسطیٰ میں فوجی طاقت کے استعمال سے متعلق سوالات کے جواب میں امریکا نے خبردار کیا ہے کہ وہ خطے میں ’بھاری تعداد میں فوج‘ تعینات کرسکتا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بحرین کے دارالحکومت امریکی سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے مانامہ ڈائیلاگ کو بتایا کہ اگر سفارتکاری ایران کا جوہری پروگرام روکنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو تمام آپشنز کھلے ہوں گے لیکن وہ ان دعوؤں کی تردید پر بھی مجبور ہوئے کہ امریکا طاقت کے استعمال سے گریزاں ہے۔
پینٹاگون کے سربراہ سے سوال کیا گیا کہ شام میں داعش سے لڑنے والی امریکی اتحادی افواج کے زیرِ استعمال اڈے پر گزشتہ ماہ ہونے والے ڈرون اور گولہ باری کے حملے پر امریکا نے کیوں ردِ عمل نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی میں پیشرفت
انہوں نے جواب دیا کہ امریکا اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے اور چاہے کبھی بھی کہیں بھی ہو ہم اپنی پسند کے مطابق ہم اپنا اور اپنے مفادات کا دفاع کریں گے۔
لائیڈ آسٹن نے مزید کہا کہ ’اور اس بارے میں کسی ملک، کسی فرد کو غلطی نہیں کرنے دیں گے، ہم اپنے، اپنے مفادات کے دفاع کے لیے پر عزم ہیں جس میں ہمارے شراکت دار بھی شامل ہیں۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اور ہم ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہ دینے کے لیے بھی پرعزم ہیں‘۔
ایران اور عالمی طاقتیں 29 نومبر کو مذاکرات کریں گے جس کا مقصد جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے جس میں پابندیوں سے نجات کے بدلے اس کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں تاہم تہران ہمیشہ اس دعوے کو مسترد کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کررہا ہے۔
مزید پڑھیں:امریکا نے ایرانی ڈرون منصوبے پر پابندی عائد کردی
سیکریٹری دفاع نے کہا کہ واشنگٹن کا بڑا ہدف مشرق وسطیٰ میں اپنے ’بے مثال‘ اتحاد کو مضبوط کرنا تھا لیکن خطے میں لاکھوں فوجیوں کی موجودگی کے ساتھ فوجی طاقت کا استعمال بھی ایک آپشن رہا ہے۔
اگست میں افغانستان پر اپنا 20 سالہ قبضہ ختم کرنے کے بعد امریکا اس سال کے آخر تک عراق سے اپنے لڑاکا فوجیوں کو واپس بلانے کے لیے تیار ہے۔
لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’مشرق وسطیٰ میں سلامتی کے لیے امریکا کا عزم مضبوط اور یقینی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ بالآخر، ہمارا مشن سفارت کاری کی حمایت کرنا اور تنازعات کو روکنے کے علاوہ امریکا اور اپنے اہم مفادات کا دفاع کرنا ہے، اگر ہمیں جارحیت پر واپسی پر مجبور کیا گیا تو ہم جیتیں گے اور فیصلہ کن طور پر جیتیں گے۔