• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ناظم جوکھیو کے بھائی کی قتل کے مقدمے سے رکن قومی اسمبلی کا نام نکالنے کیلئے درخواست

شائع November 19, 2021
ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس خان کے جام ہاؤس سے ملی تھی— فوٹو: ڈان نیوز
ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس خان کے جام ہاؤس سے ملی تھی— فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کے علاقے ملیر میں مبینہ طور پر جام ہاؤس میں قتل ناظم جوکھیو کے بھائی نے مقدمے کی ایف آئی آر سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالکریم جوکھیو کا نام نکالنے کے لیے درخواست دی ہے۔

ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام گوٹھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس خان کے جام ہاؤس سے ملی تھی۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: درخواست گزار نے جام کریم سے متعلق بیان ‘دباؤ’ میں دیا، لواحقین

ابتدائی طور پر ان کے بھائی نے رکن صوبائی اسمبلی اویس، ان کے بڑے بھائی قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور دیگر کو 27 سالہ مقتول کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں نامزد کیا جنہوں نے مبینہ طور پر کراچی کے مضافات میں رکن اسمبلی کے مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

جمعرات کو جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے سامنے شکایت کنندہ کے وکیل نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت شکایت کنندہ افضال احمد سجاول کا بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست کی۔

شکایت کنندہ نے موقف اختیار کیا کہ اس نے اپنے بھائی ناظم جوکھیو کے ساتھ اچھڑ سالار گوٹھ میں ایک گاڑی کو ہاتھ دے کر روکا اور رکنے پر گاڑیوں میں سوار لوگوں سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن اسمبلی مقدمےمیں نامزد

انہوں نے مزید کہا کہ ناظم جوکھیو نے گاڑی میں سوار لوگوں کو کہا کہ اس علاقے میں شکار ممنوع ہے لیکن ان لوگوں نے جواب دیا کہ وہ سردار جام اویس گوہرام کے لوگ ہیں۔

شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ گاڑی میں سوار لوگوں نے ان کے بھائی ناظم کو تھپڑ مارا جس نے ان کی ویڈیو بنائی تھی، ویڈیو بنانے پر انہوں نے دوبارہ ناظم کو تھپڑ مارا جس سے ان کا سیل فون زمین پر گر گیا۔

افضل جوکھیو نے گواہی دی کہ ان کے بھائی نے دوبارہ ان لوگوں کو کہا کہ وہاں شکار پر پابندی ہے لیکن انہوں نے اس کی ایک نہ سنی اور بعد میں وہ لوگ چلے گئے جبکہ ہم بھائی شام 4 یا 5 بجے کے قریب اپنے بزرگوں سے ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران میرے بھائی ناظم نے مددگار پولیس 15 پر فون کیا جبکہ اسی دن 2 نومبر کو رات کو مشتبہ ملزم جمال نے مجھے فون کیا اور اپنے سیل فون سے اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرنے کو کہا، پھر جمال نے فون نیاز کو دیا جس نے مجھے سردار گوہرام عرف جام اویس بجڑ سے بات کرنے کو کہا۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کی نئی ٹیم تشکیل

مقتول کے بھائی نے بتایا کہ سردار بجار نے گالی گلوچ کی اور مجھے اپنے بھائی ناظم کو لانے کو کہا، میں نے اپنے بھائی کو منانے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد ہم جام ہاؤس گئے جہاں سے ناظم نے اپنے وکیل مظہر جونیجو کو وائس میسج بھیجا، اس دوران مظہر نے ویڈیو اپ لوڈ کی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ بعد میں جام اویس کے لوگ ڈوڈو سالار عرف دادا، سومر سالار اور نیاز سالار کے لوگ ناظم کو گاڑی میں لے گئے اور اسے تھپڑ بھی مارا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ان کے ساتھ جام ہاؤس گئے جہاں جام اویس بجڑ اور جام عبدالکریم دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے تھے جہاں سے جام کریم باہر آئے اور پوچھا کہ بدمعاش کون ہے جس پر ان کے بھائی نے اپنی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ ناظم کو لے گئے اور مارا پیٹا، جام کریم نے میرے بھائی کو عرب مہمانوں سے معافی مانگنے کو کہا لیکن ناظم نے اسے کہا کہ عربوں کو ان سے معافی مانگنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: گورنر سندھ کا ’وفاقی جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا عندیہ

انہوں نے کہا کہ بعد میں جام کریم نے موبائل فون سے ویڈیو ڈیلیٹ کر دی اور کہا کہ میرا بھائی جام ہاؤس میں رہے گا اور مجھے کہا کہ اگلے دن گاؤں جا کر بزرگوں کو لے کر آؤ جس کی ناظم نے مخالفت کی لیکن کریم اپنی بات پر مصر رہے۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ رات 3 بجے جام عبدالکریم نے اسے اپنے مقتول بھائی کا موبائل دیا اور یہ کہہ کر جانے کو کہا کہ ناظم وہیں رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران میرے بھائی کو گارڈز کے کمرے میں لے جایا گیا جہاں باہر ایک گارڈ زاہد موجود تھا جس نے مجھ سے کہتے ہوئے سیل فون مانگا کہ جام اویس کو فون چاہیے۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اس نے سیل فون زاہد کو دیا اور نیاز نے اسے اپنے گھر چھوڑ دیا، میرے بھائی ناظم نے نیاز سے کہا کہ رابعہ کو بھی صبح لے آئے۔

صبح 10 بجے سلیم سالار نے مجھے فون کیا اور مجھے اپنے ماموں در محمد کے ساتھ ملیر کے جام ہاؤس لے گئے جہاں ہمیں ایک کمرے میں لے جایا گیا جس میں حاجی محمد اسحاق جوکھیو، وڈیرہ حاجی محمد خان، معراج جوکھیو، عبدالرزاق سالار اور نیاز سالار پہلے سے موجود تھے۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ‘بدترین تشدد’ کی نشان دہی

شکایت کنندہ نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ معراج نے مجھے اطلاع دی کہ میرے بھائی کا انتقال ہو گیا ہے، پھر ہم وہاں سے چلے گئے اور میں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی کہ جام اویس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے۔

تاہم، شکایت کنندہ نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ جام کریم نے انہیں حلفیہ بیان دیا ہے کہ ان کا میرے بھائی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جام اویس اور دیگر اس میں ملوث ہیں۔

اس لیے انہوں نے درخواست کی کہ جام عبدالکریم کا نام مقدمے سے نکالا جائے کیونکہ وہ قتل میں ملوث نہیں تھے۔

جام اویس سمیت دیگر ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا۔

دریں اثنا، مجسٹریٹ نے نظربند رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور دیگر 5 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، مقدمے کے نئے تفتیشی افسر کو آئندہ تاریخ پر تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت کو منتقل کرنے کی درخواست واپس

دریں اثنا شکایت کنندہ افضل جوکھیو نے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست واپس لے لی۔

ایڈووکیٹ شاہ محمد زمان جونیجو نے کہا کہ ان کے موکل اپنی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے اور درخواست کی کہ وہ اسے واپس لینے کی اجازت دیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ملیر میں رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس سے لاش برآمد

درخواست میں افضل نے الزام عائد کیا تھا کہ رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم جوکھیو اور ان کے بھائی رکن صوبائی اسمبلی جام اویس عرف گوہرام خان بجڑ جوکھیو نے جوکھیو قبیلے اور برادری کے دیگر افراد کو سبق سکھانے کے لیے ان کے بھائی اور مہمانوں کے خلاف آواز اٹھانے پر قتل کیا تاکہ وہ دوبارہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ مقتول کے بہیمانہ تشدد کے بعد قتل نے عوام کے ایک طبقے بالخصوص ضلع ملیر اور جوکھیو قبیلے کی پوری برادری کے ذہنوں میں خوف، دہشت، عدم تحفظ اور اضطراب پیدا کردیا ہے۔

لہٰذا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ درج کرکے اسے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے انتظامی جج کو منتقل کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024