• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اگرنواز شریف جیل جاسکتا ہے، تو ثاقب نثار کیوں نہیں جاسکتا، سابق وزیراعظم

شائع November 15, 2021
—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے نواز شریف اور مریم نوز کی ضمانت روکنے سے متعلق رپورٹس پر کہا ہے کہ ایک چیف جسٹس کی طرف سے عدالتی معاملات اور انتخابات میں مداخلت کا نوٹس لینے والا کوئی ہے، اگرنواز شریف جیل جاسکتا ہے، تو ثاقب نثار کیوں نہیں جاسکتا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں خواجہ آصف اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا محمد شمیم نے لندن میں نوٹری پبلک کے سامنے حلف نامہ دیا ہے اور حلف اٹھا کر بیان دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ثاقب نثار نے نواز شریف،مریم نواز کو عام انتخابات کے دوران جیل میں رکھنے سے متعلق رپورٹ مسترد کردی

ان کا کہنا تھا کہ وہ بیان یہ کہتا ہے کہ جولائی 2018 میں جب رانا شمیم گلگلت بلتستان کے چیف جسٹس تھے، جہاں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اپنے اہل خانہ کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں ایک چائے کے دوران دونوں موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ رانا شمیم نے حلف نامے میں لکھا ہے کہ ثاقب نثار صاحب بہت پریشان تھے اور بار بار اپنے رجسٹرار کو کہہ رہے تھے کہ آپ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج میاں عامر فاروق صاحب سے رابطہ کریں اور کہیں مجھ سے بات کریں اور اگر بات نہ ہوسکے تو پیغام دیں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ میں لگی ہے، عام انتخابات سے پہلے ان کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔

شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ یہ چیف جسٹس آف پاکستان اپنے رجسٹرار کو کہہ رہے تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق تک یہ پیغام پہنچائیں۔

انہوں نے کہا کہ رانا شمیم نے حلف اٹھا کر اپنے بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی جسٹس عامر فاروق سے بات ہوگئی، تو وہ مطمئن ہوگئے کہ پیغام پہنچ گیا ہے اور اس کے بعد ان کی طبعیت اچھی تھی اور اچھے موڈ میں تھے۔

مزید پڑھیں: جسٹس ثاقب نثار پر الزام، سابق جج رانا شمیم اسلام آباد ہائیکورٹ طلب

ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر رانا شمیم نے یہ بھی کہا ہے کہ میں نے کہا کہ آپ نے اس طرح کے پیغام سے کیوں مداخلت کی ہے کہ آپ نے نواز شریف کو ایک جعلی کیس میں جو سزا دی ہے، اس پر ضمانت سے بھی روک رہے ہیں اور فون کر رہے ہیں، تو جواب دیا کہ رانا صاحب آپ یہ معاملات نہیں سمجھ سکتے ہیں، گلگت بلتستان کے معاملات کچھ اور ہیں اور پنجاب کا ماحول کچھ اور ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ رانا شمیم نے یہ بیان از خود بغیر کسی دباؤ کے جاری کیا ہے اور ٹیلی ویژن پر ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی ہے کہ ہاں حلف کے تحت یہ بیان جاری کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے کا پس منظر بھی پاکستان کے عوام کے سامنے رکھنا بھی ضروری ہے، نواز شریف کو ایک اقامے رکھنے پر جو معمولی سی رقم کمپنی سے نہ لینے پر سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ بن کر نااہل قرار دیا اور پاکستان کی وفاقی حکومت ٹوٹ گئی۔

‘سپریم کورٹ خود ٹرائل کورٹ بنا’

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ خود ٹرائل کورٹ بنا اور یہ فیصلہ دیا گیا، یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا حصہ ہے، حکومت ٹوٹ گئی، اس کے بعد نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اور انہیں سیاست سے بھی الگ کردیا گیا۔

شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ پھر پاناما کے معاملے میں نیب کا ایک ریفرنس تھا، جو چلا، اس پر سپریم کورٹ کی طرف ایک مانیٹرنگ جج تعینات کیا گیا، پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ہے اور ایسا کوئی واقعے پہلے نہیں ہوا کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا جج مانیٹرنگ کےطور پر مقرر کیا گیا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل ہوا، جج محمد بشیر صاحب تھے، تمام ریکارڈ میں نواز شریف یا مریم نواز کا نام نہیں تھا، یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن نواز شریف اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے ملک سے باہر تھے اور پاکستان میں انتخابات ہو رہے تھے جبکہ سابق حکومت کے وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے روح رواں عین الیکشن کے درمیان 6 جولائی کو نیب عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کے بعد سزا دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں جمہوریت نہیں، جسٹس ثاقب نثار کی بدترین آمریت قائم ہے، نواز شریف

انہوں نے کہا کہ نواز شریف 13 جولائی کو ملک میں واپس آئے اور اپنی بیٹی کے ساتھ جیل چلے گئے، 16 جولائی کو انہوں نے اپیل دائر کی اور 17 جولائی کو یہ اپیل مقرر ہوئی اور اسی دن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب گلگت بلتستان تشریف لے گئے اور اس عمل پر رانا شمیم نے حلف کے تحت بیان دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آج پاکستان کے عوام کے سامنے ہے، ہر پاکستانی کے سامنے موجود ہے، ہر آدمی جو وٹس ایپ، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر اس کے سامنے یہ رپورٹ ہے۔

‘سچ کا پتا چلنا پاکستان کے عوام کا حق ہے’

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ بات یہ ہے کہ حقیقت کا علم تین افراد کو ہے، پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ جسٹس میاں عامر فاروق صاحب کو ہے اور حقیقت یہ جانتے ہیں، سچ ان کو پتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کا حق ہے کہ ان کو حق اور سچ کا پتا چلے، کیونکہ جس ملک میں انصاف نہیں ہوگا وہاں کچھ بھی نہیں ہوگا، جب اس سطح کے لوگ ملوث ہوں۔

‘ملک کے نظام میں غیر آئینی مداخلت ہے’

ان کا کہنا تھا کہ یہاں بات صرف ایک شخص یا سابق وزیراعظم کی سزا برقرار رکھنا نہیں بلکہ انتخابی عمل میں مداخلت ہو رہی ہے، تو کیا ہم یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ کب یہ معاملات اس ملک سے ختم ہوں گے، کب ہم اپنی انا اور چھوٹے چھوٹے فائدے حاصل کرنے کے لیے ہم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلیں گے، پاکستان کے مستقبل سے کھیلیں گے، اس کا جواب کسی کے پاس ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک کا چیف جسٹس ایسے معاملات میں ملوث ہو، میری دعا ہے کہ وہ ملوث نہ ہوں، لیکن جب ملک کا چیف جسٹس ایسے کام کرے گا تو پھر کون سا انصاف رہے گا، پھر ہم کس کے پاس جائیں گے، پھر عدل کہاں گیا، عوام کا اعتماد اور آئین کہاں گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہ خرابیاں ہیں، جس کا ذکر ہم باربار کرتے ہیں، ملک کا نظام آئین کے مطابق نہیں ہے اور ملک کے نظام میں مداخلت ہورہی ہے، غیر آئینی مداخلت ہے، ملک کا چیف جسٹس ملوث ہے، دوسرا چیف جسٹس کہہ رہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج کا نام آیا ہے کیا ہم اس کو معمولی بات سمجھ کر بھول جائیں، کیا یہ بات پارلیمان میں نہیں آنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: ثاقب نثار صاحب آج کل کہاں ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان ہی ان ججوں کو مقرر کرتا ہے، کیا پارلیمان پوچھ نہیں سکتا کہ یہ معاملہ کیوں ہوا اور کس نے کیا، یہ وہ چیزیں ہیں جو ملک کے مستقبل کا تعین کرتی ہیں۔

‘کون سا فورم ہے جہاں اس سچ کا تعین کیا جائے گا’

سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج عام آدمی یہ کہتا ہے کہ اگر ملک کے تین دفعہ کے وزیراعظم نواز شریف کو انصاف نہیں ملے گا تو مجھے کب انصاف ملے گا، جب ملک کا سب سے بڑا جج مداخلت کرکے یہ کوشش کرے گا کہ اس شخص کی ضمانت تک نہ ہو تو پھر سوچ لیں کہ جج محمد بشیر تھا اس نے فیصلہ کیسے کیا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ثاقب نثار صاحب ہسپتالوں کے چکر لگاتے تھے، ڈیم بنانے کی کوشش کی، ہمارا سوال یہ ہے، ہمیں تو رانا شمیم کی بات پر یقین کرنا ہوگا کیونکہ ایک شخص نے حلف کے تحت بیان دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کون سا فورم ہے جہاں پر اس سچ کا تعین کیا جائے گا، کون سا فورم ہے، جب ہم اس ملک کے وزیراعظم کو نکال سکتے ہیں، ایک اقامے کی معمولی تنخواہ اپنے بیٹے کی کمپنی سے نہ لینے پر تو پھر ہم اس قسم کی مداخلت ایک چیف جسٹس کی طرف سے ہو، انصاف کے معاملات پر، ایک ملک کے انتخابات میں مداخلت پر، اس کا نوٹس لینے والا کوئی ہے، کوئی بات کرنے والا ہے، کوئی انصاف دینے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت نظر آگئی کہ عمران خان کیسے آیا تھا، یہ ثبوت سب کے سامنے ہے، ضرورت ہے کہ اس بات کی تہہ تک پہنچاجائے کہ چیف جسٹس آف پاکستان انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے تو پھر پیچھے کیا رہ جائے گا۔

شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ یہ وہ چیزیں ہیں جس کا جواب پاکستان کے عوام چاہتے ہیں، کیونکہ آج جو مہنگائی، عوام کی تکلیف اور مشکلات ہیں یہ اس کی جڑ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب آئینی ادارے اپنی حدود میں نہیں رہیں گے اور انتخابات میں مداخلت کریں گے تو پھر عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ ہمارا سوال ہے اور ہم اس کا جواب چاہتے ہیں، جس دن اس کا جواب آئے گا ہم اس دن سمجھیں گے کہ ملک میں کوئی آئین ہے، عدل اور انصاف کا نظام ہے۔

'ثاقب نثار جھوٹ بول رہا ہے تو ان کی جگہ جیل ہے'

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ بیان دے دیا گیا ہے، یہ پاکستان کے عوام کے سامنے ہے، اگر رانا شمیم صاحب جھوٹ بول رہے ہیں، تو ان کو بدترین سزا دی جائے، اگر یہ سچ بول رہے ہیں تو پھر جسٹس ثاب نثار کی جگہ جیل میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر میاں نواز شریف جیل جاسکتا ہے، تو ثاقب نثار کیوں نہیں جاسکتا ہے اور پھر سوال یہ ہے کہ آپ نے جو سزا دلوائی تھی، اب اس کی ساری حقیقت سامنے آگئی ہے، کہ چیف جسٹس ضمانت نہ دینے میں ملوث رہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کون کون لوگ ملوث تھے، اس کا بھی پتہ کریں، آج اگر ملک میں انصاف ہے تو اس کا یہ تقاضا ہے کہ کسی کیس میں بات اٹھ گئی ہے تو اتنی اخلاقی عدالت میں ہونی چاہیے کہ ان کیسز کو اٹھا کر باہر پھینکیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج اس معاملے کا کوئی منطقی انجام تو ہونا چاہیے، یہاں پر اگر ہم دو ہفتے میں وزیراعظم کو فارغ کرسکتے ہیں تو پھر چیف جسٹس سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ تم کر کیا رہے تھے، الیکشن میں مداخلت کا اختیار کس نے دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میرا سوال ہے، پارلیمنٹ کا سوال ہونا چاہیے کہ اس ملک کے چیف جسٹس کو کس نے اختیار دیا کہ وہ عدالت کے معاملات اور انتخابات میں مداخلت کرے، اس کا جواب عدالت کو دینا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے ہماری عدالت از خود نوٹس کا اختیار رکھتی ہے اور ماضی میں اس کا استعمال کرتی رہی ہے، اس سے بڑا از خود نوٹس کا معاملہ میں پہلے نہیں دیکھا کہ خود عدالت پر انگلی اٹھا دی گئی ہے، عدلیہ کے طریقہ کار پر انگلی اٹھا دی گئی ہے، ایک ملک کے چیف جسٹس پر انگلی اٹھادی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کو نوٹس لینا چاہیے، ہمارے ملک میں مثال موجود ہے، سپریم کورٹ نے اس بہت کم تر معاملات کا نوٹس لیا ہے، یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہے، یہ ایسا مسئلہ ہے، جس نے پورے ملک کے عدالتی نظام کی جڑ کو ہلا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس کی حقیقت معلوم نہیں کریں گے، چھپانے اور دبانے کی کوشش کریں گے تو چیزیں دب نہیں جاتی ہیں، بلکہ سامنے آئیں گی۔

اس موقع پر خواجہ آصف نے کہا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ لے کر جارہے ہیں اور وکلا سے مشاورت کے بعد عدالت جانے کا فیصلہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے دیگر فیصلے بھی کیے ہیں، اگر اس طرح کے فیصلے کیے ہیں اور ان کے فیصلے ریاست پر اثرانداز ہوئے ہیں تو ان کی دیانت داری ختم ہوگئی ہے، ان فیصلوں کی کیا حیثیت ہوگی جو انہوں نے دیے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024