• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اپوزیشن کا اسپیکر سے انتخابی اصلاحات پر نئی کمیٹی بنانے کا مطالبہ

شائع November 15, 2021
نوتشکیل شدہ اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے لکھے گئے خط کا جائزہ لینے کے لیے ہوا — فائل فوٹو: اے ایف پی
نوتشکیل شدہ اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے لکھے گئے خط کا جائزہ لینے کے لیے ہوا — فائل فوٹو: اے ایف پی

پارلیمنٹ میں مشترکہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر سے کہا ہے کہ وہ ایک ’مکمل پیکیج‘ کی شکل میں انتخابی اصلاحات کے لیے ایک نئی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ مطالبہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مشترکہ اپوزیشن کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پارلیمان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی کو لکھے گئے ایک خط میں کیا۔

نوتشکیل شدہ اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے لکھے گئے خط کا جائزہ لینے کے لیے ہوا جس میں انہوں نے زیر التوا قانون سازیوں بشمول الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے آئی ووٹنگ سے متعلق بات چیت کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو مدعو کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کے 'قومی حکومت' کے بیان نے سیاسی بحث چھیڑ دی

اپنے خط میں اسپیکر نے اپوزیشن کو پارلیمانی کمیٹی برائے امور قانون سازی کو متحرک کرنے کی تجویز دی تھی، کمیٹی انہوں نے حکومت کی جانب سے 10 جون کو اپوزیشن ارکان کی عدم موجودگی میں قومی اسمبلی میں پیش کردہ 21 بلوں پر غور کے لیے بنائی تھی۔

تاہم اپوزیشن پارٹیوں نے اسپیکر کی تجویز مسترد کردی تھی اور کہا تھا کہ کمیٹی ’مقررہ قانون سازی کے طریقہ کار پر عمل کیے بغیر‘ اور تین اجلاس منعقد کرنے کے باوجود تشکیل دی گئی، حکومتی اراکین کی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنے طریقہ کار کے دائرہ اختیار کے لیے اپنے ٹرمز آف ریفرنس کو بھی حتمی شکل نہیں دے سکی۔

مسلم لیگ (ن) کے میڈیا دفتر سے جاری شہباز شریف کے خط کی نقل میں کہا گیا کہ اس عرصے کے دوران وہ تمام بلز جن پر اس کمیٹی نے غور کیا تھا وہ یا تو ختم ہوگئے یا سینیٹ نے مسترد کر دیے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھیجے گئے، اس طرح اس مقصد کی مکمل نفی ہو رہی ہے جس کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کے کاروبار کو تشکیل دیا گیا تھا۔

اسپیکر نے اپوزیشن اراکین کی جانب سے بجٹ اجلاس کے بائیکاٹ کی دھمکی کے بعد امور قانون سازی کے لیے اس وقت کمیٹی تشکیل دی تھی جب حکومتی اراکین نے 3 روز تک شہباز شریف کو تقریر نہیں کرنے دی تھی اور اس کے بعد ایوان کی کارروائی متاثر ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: اسد قیصر کا شہباز شریف کو مراسلہ: اہم امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا خیال ہے کہ قومی مفاد کے مسائل بالخصوص پاکستان کے عوام پر طویل مدتی اثرات رکھنے والی قانون سازی کو اتفاق رائے پر مبنی مشاورت سے حل کیا جانا چاہیے۔

اپوزیشن لیڈر نے اسپیکر کو تجویز دی کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو انتخابی اصلاحات کے مکمل پیکیج پر غور کرے اور اتفاق رائے سے اس کی منظوری دے جس میں قومی اسمبلی سے منظور کیے گئے وہ انتخابی بل بھی شامل ہو جو آئینی طور پر مقررہ 90 دنوں میں سینیٹ سے منظور نہیں ہوسکا۔

شہباز شریف نے تجویز دی کہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل اسی طرح کی کمیٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے جو جولائی 2014 میں اس وقت کے اسپیکر ایاز صادق نے انتخابی اصلاحات پیکیج پر غور اور منظوری کے لیے بنائی تھی۔

انہوں نے اسپیکر کو بتایا کہ مذکورہ کمیٹی نے 117 اجلاس منعقد کیے اور 10 نومبر 2017 کو انتخابی اصلاحات کا قانون سازی پیکیج متفقہ طور پر منظور کیا۔

انتخابی اصلاحات سے متعلق سابقہ کمیٹی کے سربراہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ای وی ایم سے متعلق قانون سازی کے معاملے پر وزیراعظم کی اتحادیوں، وزرا سے ملاقات

تاہم اپوزیشن نے تجویز دی کہ پارلیمانی کمیٹی برائے امور قانون سازی کو کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور اسے قومی اسمبلی سے منظور شدہ ان بلز پر بھی غور کرنا چاہیے جو سینیٹ میں نہیں لائے گئے اور اس کے بجائے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کے لیے رکھ دیے گئے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم، اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے آپشن مشترکہ اپوزیشن کے زیرِ غور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ اپوزیشن مشاورت کے بعد اس کا فیصلہ کرے گی کی کہ موجودہ ’غیر آئینی حکومت‘ کا کس طرح بوریا بستر لپیٹنا ہے اور اس کا آغاز کہاں سے ہونا چاہیے۔

دوسری جانب وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اس لیے منسوخ کیا گیا کیوں کہ حکومت ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات میں شامل کرنا چاہتی ہے جو ملک کے مستقبل سے منسلک ایک مسئلہ ہے۔

انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ حکومت انتخابی اصلاحات پر اقدامات واپس نہیں لے گی، خواہ وہ اس پر اتفاق رائے نہ بھی کرسکیں۔

اپنی ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات عمران خان یا تحریک انصاف کا ایجنڈا نہیں ہے یہ ایک قومی ایجنڈا ہے۔

وزیر اطلاعات کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے الزام عائد کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہر قومی ایجنڈے کو متنازع بنادیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی ہر سیاسی جماعت انتخابی اصلاحات چاہتی ہے لیکن عمران خان صرف آئندہ انتخابات چرانا چاہتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024