افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بڑھایا جانا چاہیے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ رابطہ نہ صرف بحال رہنا چاہیے بلکہ کئی وجوہات کی بنا پر اس میں اضافہ ہونا چاہیے تاکہ پھر سے یہ ملک خانہ جنگی کی نذر نہ ہو۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ’ٹرائیکا پلس‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاشی انحاط و انہدام کا خواہاں نہیں جس سے عدم استحکام بڑھے گا، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے اندر فعال دہشت گرد عناصر سے مؤثر انداز سے نمٹا اور مہاجرین کے ایک نئے بحران سے بچا جائے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے متعلق ہم سب کی تشویش و فکر مندی مشترک ہے جبکہ وہاں امن و استحکام ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے اور ان سب کا حصول ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے‘۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اس صورتحال میں ’ٹرائیکا پلس‘ نے نمایاں اہمیت حاصل کرلی ہے اور اس کا کردار نہایت اہم ہے جو اسے ادا کرنا ہے۔
مزید پڑھیں: چین کا بھارت کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق مذاکرات میں شرکت سے انکار
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پُراعتماد ہیں کہ ’ٹرائیکا پلس‘ کے نئی افغان حکومت سے امور امن و استحکام کے فروغ، پائیدار معاشی ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں کے لیے گنجائش مسدود ہوتی چلی جائے گی‘۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان اس وقت معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے لہٰذا ناگزیر ہے کہ عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کرے، صحت، تعلیم اور میونسپل سروسز کی فراہمی کو فوری توجہ درکار ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام قریب ترین ہمسائے کے طور پر پاکستان کے براہ راست مفاد میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے ہم نے گزشتہ چار دہائیوں میں مہاجرین، منشیات اور دہشت گردی کی صورت میں اس تنازع اور عدم استحکام کا براہ راست نقصان اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اپنے حصے کے طور پر میں امن، ترقی اور خوش حالی کے راستے پر افغانستان کی مدد کرنے کے ہمارے وزیر اعظم کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں‘۔
اجلاس میں سیکریٹری خارجہ سہیل محمود، افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان، پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق، امریکی محکمہ خارجہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ، روس کے خصوصی سفیر برائے افغانستان ضمیر کابلوف، چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان یاؤ یاؤ یانگ شریک ہوئے۔
’بیجنگ کے آئندہ کے اجلاس میں طالبان کو مدعو کریں گے‘
اجلاس کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’بیجنگ کے آئندہ کے اجلاس میں طالبان کو مدعو کریں گے تاکہ ان کے تحفظات کو عالمی برادری تک پہنچایا جاسکے اور بین الاقوامی برادری کی توقعات کا بھی ان کو علم ہو‘۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں غذائی قلت: فنڈ قائم کردیا، عوام عطیات جمع کراسکتے ہیں، فواد چوہدری
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم برادر ممالک کے شکر گزار ہیں اور انہیں احساس دلاتے ہیں کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ افغانستان میں امن و استحکام کے عالمی سطح پر بھی اور خطے پر بھی اثرات ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان میں بگاڑ سے پاکستان تو یقیناً متاثر ہوگا تاہم اور کوئی بھی نہیں بچ پائے گا جو سمجھتے ہیں کہ ہم دور ہیں اور وہ اس کی زد میں نہیں آئیں گے وہ تاریخ سے سبق سیکھیں‘۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان انسانی اقدار کو بنیاد بناتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہا ہے جو ہمارا فرض ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان کے امن، استحکام میں دلچسپی رکھتے ہیں، ہمیں احساس ہے کہ افغانستان مختلف نسلوں پر مبنی ایک معاشرہ ہے اور پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے‘۔