ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، معید یوسف
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان کی افغان طالبان پر زیادہ نہیں چلتی، ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور اس وقت ٹی ٹی پی کو وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو انہیں سابقہ افغان حکومت اور بھارت فراہم کرتے تھے۔
ڈان نیوز پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ پچھلے 10 سے 15 سال کے دوران تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کو پذیرائی ملی جس میں افغان انٹیلی جنس بھی حصہ ڈالتی رہی، ہم دنیا کو بتاتے رہے کہ پاکستانی طالبان پہلے یہ موجود تھے لیکن ہمارے آپریشنز کے بعد وہ افغانستان چلے گئے، وہاں ان کو پناہ گاہیں دی گئیں جہاں سے وہ پاکستانیوں کو شہید کرتے رہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں امن کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، عسکری حکام کی بریفنگ
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے سے پہلے بھی ہم افغان حکومت کو کہتے تھے کہ ان کو حملوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور ہم فوجی آپریشن سے پہلے اور ضرب عضب کے بعد بھی بات ہوئی لیکن کسی معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، پتا نہیں یہ بات کہاں سے شروع ہوئی ہے، ابھی تو بات ہو گی، پھر پتا چلے گا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور اس حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹی ٹی پی کو وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو انہیں سابقہ افغان حکومت اور بھارت فراہم کرتے تھے، ابھی ٹی ٹی پی سے کوئی بات نہیں ہوئی، ہمیں معلوم ہے کہ ماضی میں معاہدوں پر عمل نہیں ہوا لیکن اگر وہ ریاست کی رٹ اور سیز فائر پر تیار ہیں تو بات ہو سکتی ہے، یہ ریاست کا کام ہوتا ہے۔
معید یوسف نے کہا کہ کمیٹی کی بریفنگ میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی سمیت تمام پارٹیوں کے نمائندے وہاں موجود تھے، یہ شفاف بریفنگ تھی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام بڑے تنازعات کا اختتام مذاکرات پر ہوتا ہے، جو بھی مذاکرات کرتا ہے تو دوسرے فریق نے اس کے بندے مارے یا شہید کیے ہوتے ہیں، اگر آپ یہ موقف اپنا لیں تو پھر کوئی بات نہیں ہو سکتی اور آپ کو آخر تک لڑنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی شرائط متاثرہ افراد اور پورے پاکستان کے اتفاق رائے سے طے کی جائیں گی، جو بھی بات ہو گی وہ آئین کے مطابق ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی میزبانی میں 11 نومبر کو افغانستان پر ٹرائیکا پلس اجلاس ہوگا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی گروپ تشدد سے ہمیشہ کے لیے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے اور پاکستان کی آئینی حدود میں رہتا ہوا زندگی گزارنا چاہتا ہے اور عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کو پوری کرتا ہے تو وہ اپنی زندگی عام آدمی کی حیثیت سے گزار سکتا ہے۔
تحریک لبیک کے بھارت سے رابطوں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہاکہ افراتفری پھیلانے کے لیے جتنے بھی ٹرینڈ چل رہے تھے وہ بھارت سے چلائے جا رہے تھے، کیا بھارت نے خود سے ہی ان لوگوں کی سپورٹ میں ٹرینڈ چلانے شروع کردیے اور میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ انہیں بیرونی سپورٹ حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے معاملے میں حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کم سے کم نقصان کے ساتھ پاکستانیوں کو مرکزی دھارے کا حصہ بنایا جائے اور جو یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں تو پھر ریاست کے پاس تمام آپشن موجود ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت تمام کوششیں کررہا ہے، اس کے باوجود ہمارا ماننا ہے کہ اس خطے کو آگے چلنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا افغانستان میں استحکام کیلئے طویل مدتی حکمت عملی وضع کرنے پر زور
انہوں نے ٹی ایل پی سے معاہدے کو خفیہ رکھنے کی وجہ میڈیا کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب میڈیا کی اتنی زیادہ گفتگو پالیسی پر اثرانداز ہونے لگ جائے، جب سنسنی خیزی پالیسی امور سے آگے نکل جائے تو ریاست کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔
معید یوسف نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی سمیت تمام امور پر وزیر اعظم کو صورتحال سے باخبر رکھا جاتا ہے، ہر فیصلہ وزیر اعظم خود کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا خبردارکررہی ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران آنے والا ہے، ابھی سردیاں آنے والی ہیں اور وہاں اشیائے خورونوش کی قلت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر انسانی بحرانی آتا ہے اس سے صرف طالبان نہیں بلکہ عام آدمی کو نقصان پہنچے گا اور اگر وہاں بحران آئے گا تو پاکستان پر دباؤ بڑھے کیونکہ جب کھانے کو نہیں ہو گا تو یہ تمام لوگ پاکستان کا رخ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں انسانی بحران کی صورت میں پاکستان کو مہنگائی سامنا کرنا پڑے گا، رپورٹ
مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ عالمی برادری افغانستان کو تسلیم کرے یا نہ کرے، یہ بعد کی بات ہے لیکن انہیں فوری طور پر افغانستان کی مدد کے لیے سامنے آنا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوں، ہمارے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جسے ہم دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی پر واضح موقف ہے کہ جو بھی ہو گا وہ شفاف طریقے سے ہو گا، پرانی غلطیاں ہم نہیں کریں گے کہ اپنے عوام سے ایک بات کریں اور ہو کچھ اور جائے جس کے بعد ہمیں منفی اثرات بھگتنا پڑیں۔
ایک سوال کے جواب میں معید یہوسف نے کہا کہ پاکستان کا افغان طالبان پر اثرورسوخ نہیں اور وہ پاکستان کی زیادہ نہیں سنتے، افغانستان ایک خودمختار ملک ہے جس کی ایک عبوری حکومت ہے۔
مزید پڑھیں: چین کا بھارت کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق مذاکرات میں شرکت سے انکار
ان کا کہنا تھا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو قانونی اور جائز مانتے ہوئے مدد کی جائے، اگر بالفرض آج پاکستان انہیں تسلیم کر لیتا ہے تو کیا دنیا کے لیے بھی وہ ایک جائز حکومت ہو گی، ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اصل طاقت انہیں مغربی ممالک اور عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ طالبان کی مدد کریں۔