مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی مشن کو لے کر فلسطینیوں، اسرائیل کے درمیان تنازع
تل ابیب: فلسطین نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کے وعدے کو مسترد کرنے پر اسرائیل پر تنقید کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے متنازع شہر میں فلسطینیوں کے لیے واشنگٹن کے اہم سفارتی مشن کو بحال کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس میں ایک اور امریکی مشن کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی بیت المقدس قونصلیٹ کو بند کر دیا تھا، یہ ایک ایسا دفتر تھا جو برسوں سے فلسطینیوں کے لیے ڈی فیکٹو سفارت خانے کے طور پر کام کرتا تھا۔
مزید پڑھیں: یروشلم میں سفارتخانہ، فلسطین کا امریکا کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے اسے دوبارہ کھولنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ایک ایسا اقدام جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس سے شہر پر اس کی خودمختاری کو چیلنج کیا جائے گا۔
امریکی قونصل خانے کے دوبارہ کھولنے سے ٹرمپ کے دور میں ٹوٹے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ امریکی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایک بیان میں فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کے عزم کو بین الاقوامی برادری کے ان علاقوں پر اسرائیل کے کئی دہائیوں سے جاری قبضے کو ختم کرنے کے وعدوں کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں جو فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔
مشرقی بیت المقدس، مقبوضہ فلسطینی سرزمین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے اور ریاست فلسطین کا دارالحکومت ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل، قابض طاقت کے طور پر امریکی انتظامیہ کے فیصلے کو ویٹو کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
یہ بھی پڑھیں: یروشلم میں امریکی قونصل خانہ بند، فلسطینی مشن کا درجہ کم کردیا گیا
ایک پریس کانفرنس میں قونصل خانے کے بارے میں پوچھے جانے پر نفتالی بینیٹ نے مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیل کے مؤقف کو دوہرایا۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس میں دوسرے امریکی قونصل خانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، بیت المقدس ایک ہی ریاست کا دارالحکومت ہے اور وہ ہے اسرائیل۔
اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپید نے تجویز دی کہ قونصل خانہ مغربی کنارے کے علاقے رام اللہ میں فلسطینی انتظامی مرکز میں کھولا جاسکتا ہے۔
فلسطینی اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس سے بیت المقدس پر ان کے دعوؤں کو نقصان پہنچے گا۔
اسرائیل، مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا غیر منقسم دارالحکومت سمجھتا ہے۔
فلسطینی، شہر کے مشرقی حصے کا دعویٰ کرتے ہیں جس پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا اور بعد میں اسے ان کے مستقبل کی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر الحاق کر لیا تھا۔
مزید پڑھیں: یروشلم کے معاملے پر سعودی عرب کا 'حقیقی مؤقف' کیا ہے؟
یہ قونصل خانہ نفتالی بینیٹ کی حکومت اور جو بائیڈن انتظامیہ کے درمیان ایک اور امتحان کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس شہر منتقل کیا تھا۔
انٹونی بلنکن نے سفارتخانہ دوبارہ کھولنے کے لیے کوئی تاریخ نہیں بتائی اور امریکی حکام نے کہا ہے کہ اس اقدام کے خلاف اسرائیلی مزاحمت ایک رکاوٹ کا کام کر سکتی ہے۔