وزیراعظم نے ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کی سمری کابینہ میں پیش کرنے کی منظوری دے دی
وزیراعظم عمران خان نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے پابندی ہٹانے کے لیے سمری کابینہ میں پیش کرنے کی منظوری دے دی۔
وفاقی حکومت نے رواں برس اپریل میں ملک بھر میں تین روز کے پرتشدد احتجاج کے بعد ٹی ایل پی کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کالعدم قرار دیاتھا۔
مزید پڑھیں: لاہور: مختلف مقدمات میں زیر حراست ٹی ایل پی رہنماؤں کی ضمانت منظور
وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری سمری کے متن کے مطابق ٹی ایل پی نے حکومت پنجاب سے 29 اپریل کو پابندی ہٹانے کے لیے درخواست دے دی تھی۔
سمری میں بتایا گیا ہے کہ اس معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک جائزہ کمیٹی (پی آر سی) تشکیل دی گئی تھی اور اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا حکومتی فیصلہ حقائق کی بنیاد پر تھا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ وزارت قانون کا مؤقف بھی لیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ ‘تنظیم کی جانب سے یقین دہانی کے ساتھ وسیع تر قومی مفاد کی روشنی میں’ صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا جائزہ لیا جائے۔
سمری میں کہا گیا کہ ‘وزیراعظم نے مذکورہ سمری رولز آف بزنس 1973 کے رول 17 ون بی کے تحت کابینہ میں پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے’۔
ٹی ایل پی سے پابندی کے خاتمے سے متعلق کہا گیا کہ ‘حکومت پنجاب کی تجویز پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کی منظوری دینے کے لیے کابینہ سے درخواست کی گئی ہے’۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کو ’کالعدم‘ کی فہرست سے نکالنے کیلئے پنجاب کابینہ کا لائحہ عمل تیار
رولز آف بزنس 1973 کے مطابق اس منظوری کا مطلب ہوگا کہ سمری وفاقی کابینہ کو بھیج دی جائے گی، پھر وزرا کی تجاویز واپس وزیراعظم کو بھیج دیے جائیں گے تاکہ اس معاملے پر مزید فیصلے کیے جائیں، اگر کسی وزیر کا مؤقف مخصوص وقت تک نہیں آئے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے سمری میں دی گئی تجاویز کی منظوری دے دی ہے۔
ٹی ایل پی کا احتجاج
ٹی ایل پی سے پابندی ہٹانے کا معاملہ حالیہ احتجاج کے دوران سامنے آیا تھا اور اس پر نظر ثانی کرنے کی یقین دہانی کرادی گئی تھی۔
ٹی ایل پی نے 20 اکتوبر کو لاہور میں حکومت پنجاب پر اپنے سربراہ مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے احتجاج کے تازہ ترین دور کا آغاز کیا تھا۔
سعد رضوی کو 12 اپریل سے پنجاب حکومت نے ’امن عامہ کو برقرار رکھنے‘ کے لیے حراست میں رکھا ہوا ہے۔
تاہم ٹی ایل پی رہنما پیر اجمل قادری نے بعد میں کہا تھا کہ اس اقدام کا مقصد ’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام‘ تھا جبکہ انہوں نے سعد رضوی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
مزیدپڑھیں: ٹی ایل پی مظاہرین نے جی ٹی روڈ کھول دیا، سعد رضوی کی رہائی تک وزیر آباد میں دھرنا جاری
لاہور میں پولیس کے ساتھ تین روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد ٹی ایل پی نے 22 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کیا۔
لاہور اور گوجرانوالہ میں مارچ کے دوران تصادم کے دوران 5 پولیس اہلکار شہید اور مارچ کے شرکا اور پولیس دونوں کے سیکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔
ٹی ایل پی کی قیادت نے 30 اکتوبر کو مظاہرین سے کہا کہ وہ وزیر آباد میں قیام کریں اور مزید ہدایات کے لیے انتظار کریں جب حکومت اور تنظیم نے مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔
31 اکتوبر کو حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے دعویٰ کیا کہ وہ کالعدم تنظیم کے ساتھ 'معاہدہ' پر پہنچ چکے ہیں لیکن اس کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ٹی ایل پی کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حکومت، ٹی ایل پی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف معمولی مقدمات کی پیروی نہیں کرے گی تاہم انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔
انہوں نے ٹی ایل پی کی قیادت کو یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ کالعدم تنظیم کے اکاؤنٹس اور اثاثوں کو غیر منجمد کر دے گی اور تنظیم پر لگی پابندی ہٹانے کے لیے اقدامات کرے گی۔
پابندی کے خاتمے کیلئے حکومت پنجاب کی تجویز
وفاقی حکومت کی اسٹیئرنگ کمیٹی اور پنجاب کابینہ کی کمیٹی برائے قانون کی سفارشات کے بعد صوبائی حکومت نے کابینہ کے اراکین کو ایک سمری بھیجی جس میں ٹی ایل پی پر سے پابندی جلد از جلد اٹھانے کی منظوری طلب کی گئی۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’اگر تین دنوں میں کسی وزیر سے رائے/ منظوری نہیں لی جائے گی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وزیر نے سمری میں شامل سفارشات کو قبول کر لیا ہے‘۔
معاملے کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ذرائع کے مطابق تمام صوبائی وزرا نے فوری طور پر وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کو اپنی منظوری سے آگاہ کیا۔
مزید پڑھیں: ’حکومت، ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، نگرانی کیلئے کمیٹی قائم‘
پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اب صوبائی کابینہ سے منظوری کو حتمی منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو بھیجیں گے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ ’وفاقی کابینہ پابندی منسوخ کرنے کی منظوری دے گی اور پھر وزارت داخلہ اسے نوٹیفائی کرے گی‘۔
جہاں وفاقی حکومت اور ٹی ایل پی کے معاہدے کے بعد تقریباً 2 ہزار 100 ٹی ایل پی کارکنوں کو پولیس کی حراست سے رہا کیا گیا ہے، وہیں تنظیم کے کالعدم ہونے کی حیثیت کی منسوخی سے ٹی ایل پی کے تقریباً 8 ہزار کارکن خود بخود فورتھ شیڈول سے خارج ہو جائیں گے۔
فورتھ شیڈول ایک ایسی فہرست ہے جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دہشت گردی اور فرقہ واریت کے جرم میں مشتبہ افراد کو رکھا جاتا ہے۔