وزیر اعظم کے ریلیف پیکج کی حقیقت
وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے منگل کے روز طویل عرصے بعد قوم سے خطاب کیا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ وزیرِاعظم قوم کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے ہونے والے معاہدے پر خصوصی طور پر آگاہ کریں گے مگر حیران کن طور پر جس معاملے نے گزشتہ 2 ہفتوں سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو مفلوج رکھا ہوا تھا اس پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
وزیرِاعظم نے عوام کو بظاہر مہنگائی سے ریلیف دینے کے لیے ایک سبسڈی پیکج کا اعلان کیا ہے جس کو عمران خان نے ملک میں فلاحی ریاست قائم کرنے کے لیے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام قرار دیا ہے۔
وزیراعظم کا خطاب سننے کے بعد ہمارے ایک دوست بے ساختہ بولے کہ ابھی تو اپوزیشن نے مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہی کیا تھا کہ وزیرِاعظم نے ریلیف پیکج کا اعلان بھی کردیا!
ریلیف پیکج سے عوام کو کتنا ریلیف ملے گا؟
سب سے اہم ترین سوال تو یہی ہے کہ آیا اس ریلیف پیکج سے عوام کو کوئی فائدہ ہوگا بھی یا نہیں؟ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس پیکج کے تحت مجموعی طور پر 120 ارب روپے کی زرِ اعانت ملک کے 13 کروڑ افراد کو دی جائے گی۔ اب اگر اس رقم کو ماہانہ بنیادوں پر تقسیم کیا جائے تو حکومت اگلے 6 ماہ تک ہر ماہ 20 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرے گی اور اگر اس رقم کو 13 کروڑ افراد میں تقسیم کردیا جائے تو سبسڈی کی رقم 153 روپے اور چند پیسے فی کس ماہانہ بنتی ہے۔
اب اس رقم کو براہِ راست 13 کروڑ افراد میں تقسیم کرکے دیکھیں تو یہ رقم 923 روپے فی کس بنتی ہے۔ اگر اس فی کس رقم کو ڈالر کی موجودہ اوسط قدر 170 روپے سے تقسیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت آئندہ 6 ماہ کے دوران 13 کروڑ افراد کو فی کس 5 ڈالر 40 سینٹس دے گی۔
اب اس سبسڈی پیکج کو کیا کہا جائے؟ میری دانست میں تو یہ رقم اور ریلیف اس قدر کم ہے کہ اس کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ والی مثال بھی نہیں دی جاسکتی ہے۔ ایک طرف تو وزیرِاعظم نے سبسڈی دی ہے مگر دوسری جانب عوام کی جیبوں سے کئی سو ارب روپے نکلوانے والے بھی ہیں۔ وہ کیسے؟ اس پر بھی بات کریں گے مگر پہلے مہنگائی پر بات کرلی جائے۔
کیا مہنگائی کے معاملے میں دنیا سے موازنہ ٹھیک ہے؟
وزیرِاعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں جو مہنگائی ہو رہی ہے اس کی وجہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ترکی جیسے ملک میں مہنگائی کی شرح 19 فیصد بڑھی جبکہ اس کی کرنسی میں 33 فیصد گراوٹ آئی۔ امریکا میں 2006ء کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی، چین میں پروڈیوسر پرائس انڈیکس میں 26 سال میں پہلی بار اتنا اضافہ ہوا، جرمنی میں 50 سالوں میں سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی۔ مگر وزیرِاعظم یہ بتائیں گے کہ گزشتہ 3 سال میں پاکستان میں مہنگائی کس قدر بڑھی ہے؟
میں وزیرِاعظم کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اس وقت مہنگائی عالمی مسئلہ ہے۔ جس کی بڑی وجہ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمت خصوصاً کوئلے اور گیس کی قیمت میں اضافہ ہے۔ تاہم ایک غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح یا افراطِ زر موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے بدستور بلندی کی جانب مائل رہی ہے۔ کیا جن ملکوں کی وزیرِاعظم نے مثال دی وہاں پر بدستور افراطِ زر میں اضافہ ہوا ہے؟
افراطِ زر دراصل قیمتوں میں اضافے کی شرح کو کہتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت جب سے آئی ہے، افراطِ زر نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
مالی سال 2020ء میں قیمتوں میں اضافے کی شرح 10.7 فیصد تھی، اس دوران شہروں میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں 13.6 فیصد اور دیہی علاقوں میں 15.9 فیصد تک اضافہ ہوا۔
اسی طرح مالی سال 2021ء کے دوران مجموعی مہنگائی کی شرح 8.9 فیصد رہی جبکہ شہروں میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں 12.4 فیصد اور دیہی علاقوں میں 13.1 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اکتوبر کے دوران مہنگائی میں مجموعی طور پر 9 فیصد کا اضافہ ہوا مگر شہروں میں غذائی اجناس 10 فیصد اور دیہی علاقوں میں 9 فیصد سے زائد کی شرح سے مہنگی ہورہی ہیں۔
اگر عالمی سطح پر افراطِ زر کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جی 20 ملکوں میں جاپان، سعودی عرب اور چین میں مہنگائی کی شرح یا افراطِ زر ایک فیصد سے بھی کم جبکہ سوئٹزرلینڈ، انڈونیشیا، سنگاپور، فرانس اور اٹلی میں 3 فیصد سے کم، آسٹریلیا، برطانیہ، جنوبی کوریا، ہالینڈ، یورپی یونین، بھارت، کینیڈا اور جرمنی میں 5 فیصد سے کم، جنوبی افریقہ، امریکا، اسپین، میکسیکو اور روس میں 10 فیصد سے کم ہے البتہ صرف ترکی میں مہنگائی کی شرح 19 فیصد اور ارجنٹینا میں 52.2 فیصد رہی ہے۔
اسی طرح اگر ہم ایشیائی ملکوں کا جائزہ لیں تو بحرین، مالدیپ، متحدہ عرب امارات اور میکاؤ میں تو افراط زر ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ خانہ جنگی کے شکار شام میں یہ شرح 71.51 فیصد اور لبنان میں 144 فیصد ہے۔ جبکہ طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان میں افراطِ زر 1.56 فیصد کی سطح پر ہے۔
حال ہی میں افغانستان کا دورہ کرکے آنے والے ہمارے دوست صحافی طارق ابوالحسن نے بتایا کہ افغانستان میں خوراک میں گوشت کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور وہاں یہ پاکستان کے مقابلے میں کافی سستا بھی ہے۔ 3 افراد 600 افغانی روپے میں پیٹ بھر کر کھانا کھالیتے ہیں۔
ریلیف سے زیادہ تکلیف ملنے والی ہے!
وزیرِاعظم نے اگرچہ 120 ارب کی رقم 13 کروڑ عوام کی جیب میں ڈالی ہے مگر اسی جیب سے اربوں روپے نکلوانے کا بندوبست بھی کرلیا ہے۔
چند روز قبل نیپرا نے کابینہ کے بجلی کی قیمت میں 1.39 روپے اضافے کے فیصلے پر سماعت کی ہے۔ دراصل حکومت سال کے آخر تک بجلی کی قیمتیں بڑھا کر عوام کی جیبوں سے 900 ارب روپے نکلوانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی بڑھتی قیمتوں کے پیشِ نظر ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی، اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارا خسارہ بڑھے گا۔ محصولات میں کمی آئے گی۔
سردیوں میں گیس کا مسئلہ بھی جنم لینے والا ہے جبکہ درآمدی گیس کی قیمت بڑھانا مجبوری ہے۔ سردیوں میں گیس بحران کی بات کرنے والے وزیرِاعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ وزیرِاعظم ہیں اور انہیں عوام نے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب کیا ہے، یہ بتانے کے لیے نہیں کہ کب کون سا بحران آنے والا ہے۔
پاکستان میں ماہانہ تقریباً ایک کروڑ لیٹر پیٹرول استعمال ہوتا ہے۔ ابھی وزیرِاعظم کے خطاب کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ فی لیٹر پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے کے اضافے کی سمری منظور کرلی گئی۔
توانائی (جس میں بجلی اور پیٹرول دونوں شامل ہیں) کی مد میں حکومت ایک سال میں ایک ہزار ارب روپے اضافی نکلوانے کی تیاری کررہی ہے جبکہ عوام کو صرف 120 ارب کی سبسڈی فراہم کی جارہی ہے۔ یعنی سبسڈی کے مقابلے میں عوام کی جیب سے 880 ارب روپے تو حکومت باآسانی نکلوا لے گی اور اگر حکومت نے درآمدی گیس بھی مہنگی کی تو پھر مزید کتنے ارب روپے عوام کی جیب سے نکل جائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
وزیرِاعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی بتایا کہ دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں آٹے کی قیمت بہت کم ہیں، بھارت اور بنگلہ دیش میں آٹا 83 روپے فی کلو جبکہ پاکستان میں 60 روپے فی کلو ہے۔ دالوں کی قیمتیں بھی دنیا کے مقابلے میں کم ہیں۔
نہ جانے کون وزیرِاعظم کو 60 روپے فی کلو گرام آٹا لاکر دیتا ہے۔ ملک میں آٹے کی اوسط قیمت 80 سے 90 روپے ہے اور اگرچہ بنگلہ دیش اور بھارت میں آٹا پاکستانی کرنسی میں 83 روپے ہے لیکن ان ملکوں کی فی کس آمدنی بھی تو بتائیے جنابِ وزیرِاعظم!
اگر آٹے کی موجودہ قیمت کا موازنہ اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی کرلیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 40 روپے میں فی کلو گرام دستیاب آٹا 2 برس کے عرصے کے بعد اب دگنی قیمت پر فروخت ہونے لگا ہے۔
موجودہ حکومت کو جب نیا نیا اقتدار ملا تو اس وقت ڈالر کی قدر 122 روپے تھی جو اس سال مئی میں 152 روپے پہنچی، پھر چند ماہ میں ڈالر بڑھتے بڑھتے 175 روپے تک جا پہنچا۔ ستم یہ ہے کہ دوسری طرف گورنر اسٹیٹ بینک سمندر پار پاکستانیوں کو روپے کی قدر گرنے سے ہونے والے فائدے گنواتے ہیں مگر ملک کے غربا اور کم آمدن والے طبقات پر کیا گزری وہ انہیں یاد نہیں کہ جن کو آٹا، چینی، چاول، دالیں، گھی، تیل اور ایندھن سب کا سب عالمی منڈی کی قیمت یا پھر اس سے بھی زائد قیمت پر دستیاب ہے۔
گزشتہ دنوں وزیرِاعظم کے قریبی کاروباری شخصیات میں سے ایک کے ساتھ نجی نشست میں گفتگو ہورہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ 'ملک میں مہنگائی ہوگی لیکن اگر گندم کی قیمت بڑھے گی تو کسان خوشحال ہوگا۔ اب دیکھو کتنی تیزی سے گاڑیوں کی فروخت بڑھ رہی ہے کہ اسٹیٹ بینک کو ان کی فنانسنگ پر روک لگانی پڑگئی ہے'۔
میرے ذہن مین اچانک شہباز گل کا خیال تیر آیا ہے کہ جنہوں نے ایک موقعے پر فرمایا تھا کہ جس طرح تیز رفتاری سے گاڑی چلانے پر زیادہ ایندھن خرچ ہوتا ہے، اسی طرح جب معیشت بڑھتی ہے تو مہنگائی بھی ہوتی ہے۔
مہنگائی کے حوالے سے حکومت کے دیگر وزرا کے بیان یہاں شامل کرنا مناسب نہیں۔ مگر حکومت نے افراطِ زر کے ذریعے معیشت کو بہتر بنانے کی پالیسی اپنا لی ہے کیونکہ جب قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ریاست کے ٹیکس میں خود بخود اضافہ ہوجاتا ہے۔ مگر یہ افراطِ زر عوام کی جیبوں پر بہت بھاری پڑتا ہے۔
سابق حکومتوں کا رونا اب بند ہونا چاہیے
وزیرِاعظم عمران خان نے خطاب میں کہا تھا کہ ہمیں ورثے میں جو پاکستان ملا اس میں ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب تھے، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ اور قرضہ ملا، زرِمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے اور قرض ادا کرنے کے لیے رقم نہیں تھی اور ڈالرز کی کمی کے باعث عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑا۔
خان صاحب برائے مہربانی ماضی کی حکومتوں کو اب تو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دیں اور اپنی ناقص کارکردگی پر نظر ڈالیں۔ آپ کی حکومت کو 3 سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ 3 سال میں تو کمزور ترین نومولود بچہ بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر دوڑنے لگتا ہے۔
میں ابھی یہ سطور قلمبند کر ہی رہا تھا کہ ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کے سربراہ عبدالرؤف ابراہیم کا فون آیا اور بتایا کہ بھائی چینی نایاب ہوگئی ہے۔ ایکس مل قیمت صبح 135 روپے میں کھلی اور شام تک وہ 140 روپے فی کلو گرام سے تجاوز کر گئی ہے جس کے پاس چینی ہے وہ اپنے اپنے ریٹ پر فروخت کررہا ہے۔ جہاں چینی مل رہی ہے وہاں قیمت 150 روپے سے بھی زائد ہے۔
شوگر کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ شوگر مل مالکان نے چینی کی قیمت میں اضافے سے 265 ارب روپے کا اضافی منافع کمایا ہے۔ یعنی موجودہ حکومت جو 120 ارب روپے کی سبسڈی عوام کو دے رہی ہے وہ شوگر ملوں کی لوٹ مار سے 145 ارب روپے کم ہے۔ اگر خان صاحب یہ اضافہ ہی روک لیتے تو انہیں یہ سبسڈی پروگرام دینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد رواں سال کے دوران چینی کی فی کلو گرام قیمت میں مزید 67 روپے کا خطیر اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اب اگر خان صاحب کی حکومت کو چینی مافیا کے بجائے عوام کا دکھ ہوتا تو وہ کم از کم پنجاب میں شوگر ملیں ہی چلوا دیتے اور یوں اس وقت چینی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 150 روپے میں عوام کو دستیاب نہ ہوتی۔
لہٰذا گزارش ہے کہ عوام کو جھوٹے ریلیف پیکج دینے کے بجائے معیشت کو چلانے کی کوشش کی جائے اور مہنگائی کو کم کریں تاکہ عوام کی عزت نفس مجروح کیے بغیر انہیں روزگار کمانے کا حق مل جائے۔ خان صاحب آپ وزیرِاعظم ہیں اور جب آپ اس کرسی پر براجمان نہیں تھے اس وقت جو آپ نے وعدے کیے تھے وہ بھی کبھی کبھی سن لیا کریں شاید اسی سے کچھ افاقہ ہوجائے۔
راجہ کامران شعبہ صحافت سے 2000ء سے وابستہ ہیں۔ اس وقت نیو ٹی وی میں بطور سینئر رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔