حکومت سے معاہدے کے باوجود ٹی ایل پی مظاہرین وزیر آباد میں سعد رضوی کی رہائی کے منتظر
حکومت سے معاہدے کے باوجود کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکن مسلسل چھٹے دن بھی وزیر آباد میں ڈیرے ڈالے پارٹی سربراہ سعد حسین رضوی کی رہائی کے منتظر ہیں۔
ٹی ایل پی کے بانی مرحوم خادم رضوی کے بیٹے سعد رضوی کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس 1960 کے تحت 12 اپریل کو حراست میں لیا گیا تھا جہاں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسایا تھا۔
مزید پڑھیں: معاہدے کے تحت ٹی ایل پی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت
لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ سعد رضوی کی رہائی کا حکم دیا تھا لیکن حکومت نے اس پر عمل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد 20 اکتوبر سے تحریک لبیک نے لاہور میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
لاہور میں پولیس کے ساتھ تین روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد ٹی ایل پی نے 22 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کیا تھا، دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کے دوران لاہور اور گوجرانوالہ میں مشتعل مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے نتیجے میں 5 پولیس اہلکار شہید اور دونوں اطراف سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔
حکومت اور کالعدم تنطیم میں مذاکرات کا آغاز ہوا تو ٹی ایل پی کی قیادت نے 30 اکتوبر کو مظاہرین سے کہا تھا کہ وہ وزیر آباد میں مزید ہدایات کے لیے انتظار کریں، دونوں فریقیں میں اگلے دن ایک معاہدہ طے پا گیا تھا لیکن اس کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔
منگل کو ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ حکومت اب سعد رضوی کو رہا کرنے پر غور کر رہی ہے، حکومت صورتحال کو اس انداز میں پرامن رکھنے پر سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ اس کی کوششیں رائیگاں نہ جائیں اور حکومت اور ٹی ایل پی کو معاہدے کے نتیجے میں ایک پائیدار حل مل جائے تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی نے ٹی ایل پی اور حکومت کا معاہدہ ’ریاست کا جھک جانا‘ قرار دے دیا
تازہ ترین پیش رفت کی بات کی جائے تو ٹی ایل پی کے کارکنوں نے وزیر آباد میں اللہ والا چوک کے قریب ایک پارک میں کیمپ لگایا ہوا ہے لیکن وہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے معمولات زندگی میں خلل نہیں ڈال رہے البتہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی پارک کے اطراف میں موجود ہیں اور صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
البتہ شہر میں انٹرنیٹ سروس بدستور معطل ہے، جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے، دریائے چناب پر واقع ریلوے پل پر مظاہرین کو روکنے کے لیے کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹا دی گئی تھیں تاہم حکام کی جانب سے کھودی گئی خندقیں بدھ کی شام تک نہیں بھری گئیں جس سے اسلام آباد کی جانب گاڑیوں کی آمدورفت میں خلل پڑ رہا ہے۔
یاد رہے کہ پنجاب کے وزیر قانون و پارلیمانی امور راجہ بشارت نے ایک روز قبل تصدیق کی تھی کہ پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی کے 800 سے زائد کارکنوں کو رہا کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے کی معاونت دینے والوں میں سے ایک عقیل کریم ڈھیڈھی نے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے باوجود ٹی ایل پی کے کارکنوں کی رہائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشتعل ہجوم کے حملوں میں اصل مجرموں کو تلاش کرنا مشکل تھا۔
مزید پڑھیں: ’حکومت، ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، نگرانی کیلئے کمیٹی قائم‘
انہوں نے شو میں کہا تھا کہ ہمیں ان ہلاکتوں کو بھول کر آگے بڑھنا ہو گا، ہم 10 لوگوں کے قتل سے ملک کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔
یاد رہے کہ اتوار کو حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کالعدم گروپ کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دینے کی پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں لیکن انہوں نے معاہدے کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا تھا۔
دیگر متعدد رہنماؤں کے ساتھ مل کر مذاکرات کرنے والے مفتی منیب الرحمٰن نے اس وقت کہا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات مناسب وقت پر منظر عام پر لائی جائیں گی تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے مثبت نتائج قوم کو اگلے ہفتے یا اگلے 10 دنوں کے دوران نظر آئیں گے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے ٹی ایل پی قیادت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ کالعدم تنظیم کے منجمد اکاؤنٹس اور اثاثے بحال کریں گے اور حکومت ان پر عائد پابندی ہٹانے کے لیے اقدامات کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ حکومت ٹی ایل پی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف معمولی مقدمات کی پیروی نہیں کرے گی تاہم انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔